رسائی کے لنکس

نقیب قتل کیس: راؤ انوار و دیگر کی ضمانت منسوخ کرنے کی استدعا


کراچی میں جعلی پولیس مقابلے میں قتل کیے جانے والے نقیب اللہ محسود کے کیس میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے تمام مفرور ملزمان کو اشتہاری قرار دے دیا ہے۔

دوسری جانب مقدمے کے تفتیشی افسر نے عدالت میں جمع کرائی جانے والی اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ کیس میں نامزد ملزمان نے واقعے کے اہم عینی شاہد کو بیان سے منحرف کرانے کے بعد اسے لاپتا بھی کر دیا ہے۔

کراچی کی انسدادِ دہشت گردی عدالت میں ہفتے کو ہونے والی سماعت کے دوران کیس کے تفتیشی افسر ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان احمد نے عدالت کو بتایا کہ پولیس نے مفرور ملزمان کو ضابطے کے تحت اشتہاری قرار دینے کی کارروائی مکمل کرلی ہے۔

واقعے کے مرکزی ملزم اور سابق ایس ایس پی راؤ انوار کی ضمانت منسوخ کرنے سے متعلق سندھ ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں بھی تفتیشی افسر نے رپورٹ پیش کر دی ہے۔

رپورٹ میں عدالت سے درخواست کی گئی ہے کہ کیس میں ضمانت حاصل کرنے والے تمام ملزمان کی ضمانتیں فوری منسوخ کی جائیں کیونکہ یہ ملزمان انتہائی سفاک، چالاک، بااثر اور طاقت ور افسران رہے ہیں۔

تفتیشی افسر نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ان ملزمان کی ضمانت کی توثیق کی صورت میں اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ سرکاری گواہوں کو منحرف کرا دیں گے یا پھر انہیں لاپتا کردیں گے۔

تفتیشی افسر کے مطابق ملزمان کے با اثر ہونے کا ایک منہ بولتا ثبوت یہ بھی ہے کہ انہوں نے مقدمے کے اہم چشم دید گواہ شہزادہ جہانگیر کو کیس کی باقاعدہ سماعت مقرر ہونے سے قبل ہی اثر و رسوخ اور دباؤ کے ذریعے اسے اپنے بیان سے پہلے منحرف کرایا اور پھر اب اسے لاپتا بھی کردیا ہے۔

ڈاکٹر رضوان احمد نے عدالت کو بتایا ہے کہ ایسی صورت میں اگر ملزمان ضمانت پر رہے تو یہ عمل استغاثہ کے کیس کو نقصان پہنچانے کا سبب بن سکتا ہے اور ملزمان استغاثہ کے دیگر گواہوں کو بھی ڈرا دھمکا کر اپنا بیان بدلنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔

رپورٹ میں تفتیشی افسر نے دعویٰ کیا کہ ملزمان کے خلاف انتہائی مؤثر ڈیجیٹل شہادتیں بھی موجود ہیں جو انہیں سزا کا حق دار ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔ ایسی صورت میں ملزمان کی ضمانت فوری طور پر منسوخ کی جائے ورنہ وہ انصاف کے حصول میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔

کیس کے مدعی مقتول نقیب اللہ کے والد محمد احمد خان کے وکیل صلاح الدین پنہور ایڈوکیٹ نے تفتیشی افسر کی رپورٹ پر اپنے ردِ عمل میں کہا ہے کہ وہ پہلے سے انہی خدشات کا اظہار کر رہے تھے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ گواہوں کو تحفظ دینے سے متعلق انہوں نے عدالت اور پولیس کو بھی درخواست دی تھی مگر اس پر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ واقعے کے مرکزی گواہ شہزادہ جہانگیر کے لاپتا ہونے پر اب ان کے وہ خدشات درست ثابت ہورہے ہیں کہ ملزمان کیس پر اثر انداز ہونا چاہتے ہیں۔

صلاح الدین پنہور کا کہنا تھا کہ انسدادِ دہشت گردی کے قوانین کے تحت بھی گواہوں کا تحفظ پولیس کی ذمہ داری ہے اور نقیب اللہ قتل جیسے ہائی پروفائل مقدمے میں اہم ترین عینی شاہد کا یوں لاپتا ہوجانا کیس کی ساکھ کو متاثر کرسکتا ہے۔

صلاح الدین پنہور نے عندیہ دیا کہ وہ آئندہ سماعت کے موقع پر پولیس کی غفلت سے عدالت کو آگاہ کریں گے اور ہر وہ قدم اٹھائیں گے جس سے کیس میں مقتول کے خاندان کو جلد انصاف مل سکے۔

دریں اثنا انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے ملزمان کو اشتہاری قرار دینے سے متعلق تفتیشی افسر کا بیان قلم بند کرنے کے بعد کیس کی مزید سماعت 19 فروری تک ملتوی کردی ہے۔

واضح رہے کہ اس کیس میں پانچ ملزمان ضمانت پر ہیں جن میں کیس کے مرکزی ملزم سابق ایس ایس پی راؤ انوار، سابقہ ڈی ایس پی قمر احمد شیخ، سب انسپکٹر محمد یاسین، اے ایس آئی سپرد حسین اور ہیڈ کانسٹیبل خضر حیات شامل ہیں۔

اسی کیس میں چھ ملزمان گرفتار بھی ہیں جن میں سب انسپکٹر محمد انار خان، اسسٹنٹ سب انسپکٹر خیر محمد، پولیس کانسٹیبل عمران کاظمی، اے ایس آئی اکبر ملاح، ہیڈ کانسٹیبل فیصل محمود اور پولیس کانسٹیبل رئیس عباس شامل ہیں۔

کیس میں مفرور سات ملزمان میں سب انسپکٹر امان اللہ مروت، اے ایس آئی گدا حسین، ہیڈ کانسٹیبل محسن عباس، ہیڈ کانسٹیبل صداقت حسین، پولیس کانسٹیبل راجہ شمیم مختار، پولیس کانسٹیبل رانا ریاض اور سب انسپکٹر شیخ محمد شعیب عرف شوٹر شامل ہیں۔

عدالت نے گزشتہ سماعت کے موقع پر نقیب اللہ سمیت دیگر مقتولین کے خلاف پولیس کی جانب سے دائر مقدمات کو جھوٹا قرار دینے سے متعلق رپورٹ منظور کی تھی۔

اس رپورٹ میں بھی یہ بات سامنے آئی تھی کہ ان ملزمان نے جعلی مقابلے کے بعد نقیب اللہ محسود اور دیگر پر دھماکا خیز مواد، پولیس مقابلے، غیر قانونی اسلحے اور دیگر الزامات کے تحت پانچ جھوٹے مقدمات قائم کیے جن کا کوئی ثبوت انکوائری کمیٹی کو نہیں مل سکا۔

کیس کے مرکزی ملزم سابق ایس ایس پی راؤ انوار نے ضمانت کے حصول کے بعد اپنا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکالنے کی بھی درخواست دائر کر رکھی تھی جسے سپریم کورٹ نے مسترد کردیا تھا۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG