امریکی محکمہ خزانہ کے مطابق ایران میں موجود القاعدہ کو مدد فراہم کرنے والے وہ 6 مشتبہ اہل کار، جن کے خلاف جولائی میں امریکہ نے اقتصادی پابندیاں عائد کی تھیں، در حقیقت ایران کی حکومت کے ساتھ ایک خفیہ سمجھوتے کے تحت اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھے۔ واشنگٹن کے ایک تھنک ٹینک فاؤنڈیشن فار دی ڈیفنس آف ڈیموکریسیز سے منسلک بل روجیوکے مطابق چونکہ امریکہ ان پابندیوں کو ایران کے اندر فافذ نہیں کر سکے گا، اس لیے وہ عملی طور پر زیادہ موثر ثابت نہیں ہوں گی۔
ان کے مطابق القاعدہ اور ایرانی حکام کے درمیان نظریات کی بنیاد پر اختلافات کے باوجود دونوں نے امریکہ اور مغربی ممالک کو اپنا حریف قرار دیا ہے۔ لیکن تمام ماہرین القاعدہ اور ایرانی حکومت کے درمیان تعلقات کی نوعیت پر متقق نہیں ۔
امریکہ کی نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی میں سیکیورٹی امور کے پروفیسرجاش مائرز کا کہناہے کہ انہیں ایرانی حکومت اور وہاں سرگرم ان گروپوں کے درمیان کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔ زیادہ ممکن یہ ہےکہ ایرانی حکام ان کی سرگرمیوں کو نظر انداز کررہے ہوں۔
ان کے مطابق ایران کے ایک اتحادی جنگ جو گروپ حزب اللہ اور القاعدہ کے ایجنڈے بھی ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں، جس کی وجہ سے القاعدہ ایران میں اپنے قدم نہیں جما سکی ہے۔
امریکہ نے ایران پر القاعدہ کے ساتھ مل کر کام کرنے کا الزام اور اس سلسلے میں اقتصادی پابندیاں پہلے بھی عائد کی ہیں۔ جاش مائرزکے مطابق یہ ممکن ہے کہ ایران کے بینکوں اور کمپنیوں پر امریکہ کی جانب سے پابندیاں عائد کرنے کے برعکس ایران میں واقع کسی دہشت گرد گروپ پر پابندیاں عائد کرنا اتنا موثر ثابت نہ ہو۔
لیکن بل روجیو اس نقظہ نظر سے متفق نہیں۔ ان کے خیال میں کے مطابق بین الاقوامی کمیونٹی ایران میں القاعدہ سے منسلک افراد کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کے امریکی فیصلے کا اس لیے ساتھ دے گی، کیونکہ یہ افراد ایک ایسی تنظیم میں شامل ہیں جس سے امریکہ ہی نہیں، اس کے دوست ممالک کو بھی حملے کا خدشہ ہے۔