’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ کی ایک نئی رپورٹ کے مطابق، ایران انسانیت سوز جرائم کا مرتکب رہا ہے، جس نے 30 برس قبل کم از کم 5000 سیاسی قیدیوں کو اجتماعی پھانسی دی اور اس معاملے کی پردہ پوشی کرتا رہا ہے۔
حقوق انسانی کا گروپ اس بات کا خواہاں ہے کہ اقدام متحدہ 1988ء کی اِن ہلاکتوں اور مخالفین کے لاپتا ہونے کے معاملے کی تفتیش کا آغاز کرے، جس میں ایرانی حزب مخالف کے حامیوں کو ہدف بنایا گیا تھا۔ متعدد خاندان ابھی تک اس بات سے لا علم ہیں کہ لاپتا ہونے کے بعد اُن کے پیاروں کے ساتھ کیا بیتی۔
ایران نے ہلاکتوں کو کبھی تسلیم نہیں کیا، تدفین کے بارے میں کوئی انکشاف نہیں کیا گیا، نہ ہی یہ بتایا گیا آیا لاپتا ہونے والے کہاں اور کس حال میں ہیں۔
’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ کے سکریٹری جنرل، کومی نائدو نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’یہ جرم ابھی تازہ ہے اور کروٹ لے رہا ہے، جب تک زیر نظر متعلقہ ملک، ایران، اس بات کا حساب نہیں دیتا کہ یہ حضرات کہاں گم ہوگئے‘‘۔
ایمنسٹی کے ہزاروں انٹرویوز اور دستاویزات میں اس بات کی تفصیل درج ہے کہ اُس وقت کے رہبر اعظم روح اللہ خمینی کے احکامات یا ’’فتویٰ‘‘ کے نتیجے میں ہزاروں کی تعداد میں قید سرگرم سیاسی کارکنوں کو کس طرح پھانسیاں دی گئیں یا ان کو غائب کرایا گیا۔