ایران نے پاکستان کو خبردار کیا ہے کہ وہ رواں ہفتے دونوں ملکوں کی سرحد کے نزدیک ایرانی فورسز پر ہونے والےحملے کے ذمہ داروں کو سزا دے ورنہ ایران خود ان کے خلاف فوجی کارروائی کرے گا۔
ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی 'ارنا' کے مطابق پاسدارانِ انقلاب کے سربراہ میجر جنرل محمد علی جعفری نے کہا ہے کہ اگر پاکستان نے اپنی ذمہ داریاں ادا نہ کیں تو ایران اپنی سرحدوں پر موجود خطرات کا جواب دینے کا حق رکھتا ہے۔
ایرانی کمانڈر نے کہا کہ بین الاقوامی قانون ایران کو اپنے دفاع کا حق دیتا ہے جس کے تحت وہ دہشت گردوں کو سزا دینے کے لیے خود کارروائی کرے گا۔
واضح رہے کہ بدھ کو پاکستان کی سرحد سے متصل ایرانی صوبے سیستان اور بلوچستان میں ایک قافلے پر خود کش حملے میں ایرانی فوج کے 27 اہلکار ہلاک ہوگئے تھے۔
ہلاک ہونے والے اہلکاروں کا تعلق پاسدارانِ انقلاب کی سرحدی فورس سے تھا جن کی بس سے خود کش حملہ آور نے بارود سے بھری اپنی گاڑی ٹکرادی تھی۔
حملے کی ذمہ داری ایران میں سرگرم سنی تنظیم 'جیش العدل' نے قبول کی تھی جس کا دعویٰ ہے کہ وہ ایران میں آباد سنی العقیدہ اقلیت کو شیعہ اکثریت کے مظالم سے بچانے اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم ہے۔
ایرانی حکام کا الزام رہا ہے کہ اس کی حدود میں سرگرم 'جیش العدل' اور دیگر سنی تنظیموں کے سرحد پار پاکستان میں محفوظ ٹھکانے ہیں اور وہ بارہا پاکستان سے ان تنظیموں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔
ہفتے کو ایران کے سرکاری ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے پاسدارانِ انقلاب کے سربراہ نے کہا کہ انہیں معلوم ہے کہ حالیہ حملے میں ملوث افراد کے ٹھکانے کہاں ہیں اور اگر پاکستان نے ان کے خلاف کارروائی نہ کی تو ایران انہیں خود سزا دے گا۔
جنرل محمد علی جعفری نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پر بھی ایران میں سرگرم سنی شدت پسند تنظیموں کی پشت پناہی کرنے کا الزام دہرایا اور کہا کہ ان دونوں ملکوں کو بھی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
ایرانی جنرل کا کہنا تھا کہ حملہ آوروں کو ردِ عمل کا شکار علاقائی ریاستوں – سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات – کی مدد حاصل ہے جو اسرائیلی اور امریکیوں کے حکم پر ان کی مدد کر رہی ہیں۔
ایرانی جنرل کا یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب پولینڈ کے دورالحکومت وارسا میں مشرقِ وسطیٰ کی صورتِ حال پرا یک کانفرنس جاری ہے۔
امریکہ کی دعوت پر ہونے والی اس کانفرنس میں اس کے عرب اور یورپی اتحادی شریک ہیں جو خطے میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ اور اس کے مقابلے کی حکمتِ عملی پر بات کر رہے ہیں۔