ایران میں حکام نے 2017ء میں ایرانی انقلاب کے بانی آیت اللہ خمینی کے مزار اور پارلیمان کی عمارت پر حملے میں ملوث آٹھ افراد کو پھانسی دے دی ہے۔
ان افراد کو پھانسی کی سزا ایران کی ایک عدالت نے سنائی تھی جس پر اطلاعات کے مطابق ہفتے کو عمل درآمد کردیا گیا ہے۔
گزشتہ سال 7 جون کو کیے جانے والے اس حملے میں 18 افراد ہلاک اور 50 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔
شیعہ اکثریتی ملک ایران میں حالیہ برسوں کے دوران سنی شدت پسندوں کی جانب سے کیا جانے والا یہ واحد حملہ تھا جس کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کی تھی۔
داعش نے کہا تھا کہ اس نے یہ حملہ عراق اور شام میں ایران کی فوجی مداخلت کے جواب میں کیا ہے۔
اس حملے کے بعد ایرانی فوج 'پاسدارانِ انقلاب' نے شام میں داعش کے مبینہ ٹھکانوں پر میزائل حملے کیے تھے۔
ایرانی عدلیہ کے خبررساں ادارے 'میزان نیوز' اور دیگر نیم سرکاری خبر رساں ایجنسیوں نے ہفتے کو اپنی رپورٹس میں تصدیق کی ہے کہ حملے میں ملوث ہونے کے الزام میں پھانسی کی سزا پانے والے آٹھ افراد کی سزاؤں پر عمل درآمد کردیا گیا ہے۔
تاہم ان رپورٹس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ ان افراد کو کس جگہ اور کس وقت پھانسی دی گئی۔
ایران کا شمار مجرموں کو سزائے موت دینے والے دنیا کے سرِ فہرست ملکوں میں ہوتا ہے لیکن اتنی بڑی تعداد میں مجرموں کو ایک ساتھ پھانسی دینے کے واقعات کم ہی پیش آتے ہیں۔
ایران میں آخری بار اجتماعی پھانسی دینے کا واقعہ اگست 2007ء میں پیش آیا تھا جب ایرانی حکام نے مشہد شہر میں زنا بالجبر کے آٹھ ملزمان کو ایک ساتھ پھانسی دی تھی۔
ایرانی خبر رساں اداروں کے مطابق تہران حملے میں ملوث جن افراد کو پھانسی دی گئی ہے ان میں سلیمان مظفری، اسمعیل صوفی، رحمن بہروز، ماجد مرتضائی، سیروس عزیزی، ایوب اسماعیلی، خسرو رمیزانی اور عثمان بہروز شامل ہیں۔
ان حملوں میں ملوث ہونے کے الزام میں مزید ایک درجن سے زائد افراد پر تاحال مختلف ایرانی عدالتوں میں مقدمات کی سماعت جاری ہے۔