ایران نے حال ہی میں عراق کے کردستان ریجن کے قریب اپنی مغربی سرحدوں پر نئی فوجی کمک بھیجی ہے اور ایرانی کرد اپوزیشن گروہوں کے خلاف عراقی کردستان میں سرحد پار سے زمینی حملہ کرنے کی دھمکی دی ہے۔
وائس آف امریکہ کے دلشاد انور اور ریکار حسین کی رپورٹ کے مطابق عراق میں ایک سینئر عراقی کرد اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وی او اے کو بتایا کہ ''ایران نے کردستان کے علاقے کے قریب افواج کو جمع کرلیا ہےاور عراقی فوجی حکام کے ایک وفد کے ذریعے کردستان کی علاقائی حکومت کو پیغام بھیجا ہے کہ اگر مشرقی کردستان کی فورسز یعنی ایرانی کرد عسکریت پسندوں نے علاقے کو خالی نہیں کیا تو وہ ایک زمینی آپریشن کر سکتا ہے۔''
اہلکار نے مزید کہا کہ ایران کے ''پیغام''کے بعد کردستان ریجن کے وزیر داخلہ ریبار احمد خالد نے ایرانی کرد گروہوں،کردستان ڈیموکریٹک پارٹی آف ایران (کے ڈی پی آئی) اور ایرانی کردستان کے کارکنوں کی انقلابی ایسوسی ایشن کے رہنماؤں سے ملاقات کی اور ان سے مطالبہ کیا کہ وہ کسی ایرانی دراندازی کو روکنے کے لیے اپنے جنگجوؤں کو پہاڑی سرحدی علاقے سے واپس بلا لیں۔
ایرانی کردستان کے کارکنوں کی انقلابی ایسو سی ایشن کے ترجمان عطا ساقزی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ''ایران بہت سے فوجیوں کو سرحدوں پر لایا ہے، اور عراقی کردستان ریجن کے اندر مشرقی کردستان کے سر گرم سیاسی کارکنوں کے قتل کا بھی خطرہ ہے۔''
وائس آف امریکہ کے اس سوال کے جواب میں کہ آیا واشنگٹن کو کردستان کے علاقے میں ایران کی فوجی نقل و حرکت کا علم تھا، امریکی محکمۂ خارجہ کے پرنسپل نائب ترجمان ویدانت پٹیل نے کہا کہ ان کے پاس''کوئی تفصیلات نہیں ہیں،'' تاہم انہوں نے کہا کہ''ہم عراق کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے بارے میں کسی بھی خلاف ورزی کا معاملہ اٹھائیں گے۔''
واضح رہے کہ ایران میں وسیع پیمانے پر مظاہرے 16 ستمبر کو کرد شہروں میں اس وقت شروع ہوئے جب ایک 22 سالہ کرد خاتون مہسا امینی مبینہ طور پر اپنے بالوں کو حجاب سے صحیح طریقے سے ڈھانپنے میں ناکامی پر، ایران کی اخلاقی پولیس کی حراست میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔
اوسلو میں قائم تنظیم ایران ہیومن رائٹس کے مطابق مظاہرے تیزی سے ایرانی کردستان سے باہر دوسرے شہروں میں پھیل گئے اور سیکیورٹی فورسز اور مظاہرین کے درمیان پرتشدد جھڑپوں میں بچوں سمیت کم از کم 154 افراد ہلاک ہو گئے ۔
ایرانی حکومت نے مظاہروں کو روکنے کی کوشش کرتے ہوئے اور ایرانی کرد عسکریت پسندوں پر کرد شہروں میں عوامی مزاحمت کی حوصلہ افزائی کا الزام لگاتے ہوئے گزشتہ دو ہفتوں کے دوران ایران عراق سرحد پر ان گروہوں کے ٹھکانوں پر کئی بار گولہ باری کی ہے۔
ایرانی کرد حکام نے وی او اے سے بات کرتے ہوئے اس بات کی تردید کی کہ ایران میں بدامنی کے پیچھے ان کا ہاتھ ہے اور کہا کہ یہ مظاہرے '' از خود شروع ہونے والی ایک شہری تحریک' کا ایک حصہ تھے۔
ان حملوں میں 28 ستمبر کو اس وقت مزید شدت پیدا ہو گئی جب ایران کے پاسداران انقلاب نے سلیمانیہ، اربیل اور کرکک کے قریب تین ایرانی کرد اہداف پر میزائل اور ڈرون حملے کیے جن میں کم از کم 14 افراد ہلاک اور 30 سے زیادہ زخمی ہوگئے۔ ہلاک ہونے والوں میں ایک امریکی شہری، ایک ماں اور ایک دن کا بچہ بھی شامل تھا۔
امریکی فوج نے کہا کہ اس نے ایک ڈرون کو مار گرایا کیونکہ اس سے کردستان ریجن کے دارالحکومت اربیل میں امریکی فورسز کو خطرہ تھا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرنے والے حکام اور ماہرین کے مطابق یہ واضح نہیں ہے کہ آیا کردستان کی علاقائی حکومت ایران کو خطے پر مزید حملوں سے باز رکھنے میں کامیاب ہو جائے گی، کیوں کہ کرد حکومت اپنے سے کہیں زیادہ طاقتور ایران کے مقابلے میں کم طاقت رکھتی ہے ۔
کردستان کی علاقائی پارلیمنٹ میں پیشمرگا کمیٹی کے نائب سربراہ عثمان سداری نے وی او اے کو بتایا کہ خطے کے لیے خطرے سے نمٹنے کا بہترین راستہ سفارت کاری ہے ۔
سیداری کے مطابق ''ہمیں کردستان کے علاقے کے طور پر ان مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک پرامن افہام و تفہیم کی ضرورت ہے۔ مرکزی حکومت )بغداد میں) اور کردستان کا علاقہ ،دونوں اب اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے مسلسل بات چیت کر رہے ہیں۔''
ترکی، عراق، ایران اور شام میں کرد قوم پرست تحریک، زگروس کے وسیع و عریض پہاڑو ں کی وجہ سے چار حکومتوں کے دباؤ کا مقابلہ کر رہی ہے ۔ ایران کے شمال مغرب میں ایک کروڑ سے زیادہ کرد بستےہیں ، کرد باشندے 1946 میں اپنی پہلی کردستان جمہوریہ قائم کرنے میں کامیاب ہوئے تھے، جسے تقریباً 12 ماہ بعد ایرانی حکومت نے کچل دیا تھا۔