ایران نے کہا ہے کہ بین الاقوامی قوانین کے تحت سنی باغیوں کے خلاف لڑائی میں تہران اپنے ہمسایہ ملک عراق کی مدد کرنے کو تیار ہے۔
یہ پیش کش ایرانی صدر حسن روحانی نے ہفتہ کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کی۔ ان کا کہنا تھا کہ بغداد کی طرف سے ابھی تک مدد کی کوئی درخواست نہیں کی گئی۔
انھوں نے کہا کہ اگر امریکہ عراق اور دیگر علاقوں میں "دہشت گردوں‘‘ سے لڑ رہا ہے تو ان کی حکومت قیام امن کے لیے واشنگٹن کے ساتھ تعاون کر سکتی ہے۔
’’ہم سب کو عملاً اور الفاظ کے ذریعے دہشت گرد گروہوں کا مقابلہ کرنا چاہیے۔‘‘
ایرانی رہنما کی طرف سے بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا جب 'آئی ایس آئی ایل' نامی سنی شدت پسندوں کی تنظیم نے جمعے کو عراق کے مشرقی صوبے دیالہ کے مزید دو قصبوں پر قبضہ کرتے ہوئے دارالحکومت بغداد کی جانب پیش قدمی جاری رکھی۔
ملک کے اہم اور مرکزی شیعہ عالمِ دین آیت اللہ سیستانی نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ باغیوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔
ادھر وزیراعظم نوری المالکی نے ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کے لیے پارلیمنٹ کا ہنگامی اجلاس طلب کیا تھا لیکن کرد اور سنی قانون سازوں کے بائیکاٹ کی وجہ سے اجلاس نا ہوسکا۔
جنگجوؤں کے زیرِ قبضہ علاقوں سے مہاجرین سے متعلق بین الاقوامی تنظیم ’آئی او ایم‘ کے مطابق لوگوں کی ایک بڑی تعداد گھروں کو چھوڑ کر محفوظ مقامات پر منتقل ہورہی ہے۔
دریں اثنا ایرانی صدر حسن روحانی کا صحافیوں سے گفتگو میں اپنے ملک کے متنازع جوہر پروگرام کے متعلق کہنا تھا کہ تہران سمجھتا ہے کہ چھ عالمی طاقتوں سے جوہری تنازع کے حل پر 20 جولائی تک ایک مفصل معاہدہ ہو سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دیگر اختلافات خیرسگالی اور لچک کا مظاہرہ کرنے سے حل ہو جائیں گے۔
یہ پیش کش ایرانی صدر حسن روحانی نے ہفتہ کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کی۔ ان کا کہنا تھا کہ بغداد کی طرف سے ابھی تک مدد کی کوئی درخواست نہیں کی گئی۔
انھوں نے کہا کہ اگر امریکہ عراق اور دیگر علاقوں میں "دہشت گردوں‘‘ سے لڑ رہا ہے تو ان کی حکومت قیام امن کے لیے واشنگٹن کے ساتھ تعاون کر سکتی ہے۔
’’ہم سب کو عملاً اور الفاظ کے ذریعے دہشت گرد گروہوں کا مقابلہ کرنا چاہیے۔‘‘
ایرانی رہنما کی طرف سے بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا جب 'آئی ایس آئی ایل' نامی سنی شدت پسندوں کی تنظیم نے جمعے کو عراق کے مشرقی صوبے دیالہ کے مزید دو قصبوں پر قبضہ کرتے ہوئے دارالحکومت بغداد کی جانب پیش قدمی جاری رکھی۔
ملک کے اہم اور مرکزی شیعہ عالمِ دین آیت اللہ سیستانی نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ باغیوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔
ادھر وزیراعظم نوری المالکی نے ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کے لیے پارلیمنٹ کا ہنگامی اجلاس طلب کیا تھا لیکن کرد اور سنی قانون سازوں کے بائیکاٹ کی وجہ سے اجلاس نا ہوسکا۔
جنگجوؤں کے زیرِ قبضہ علاقوں سے مہاجرین سے متعلق بین الاقوامی تنظیم ’آئی او ایم‘ کے مطابق لوگوں کی ایک بڑی تعداد گھروں کو چھوڑ کر محفوظ مقامات پر منتقل ہورہی ہے۔
دریں اثنا ایرانی صدر حسن روحانی کا صحافیوں سے گفتگو میں اپنے ملک کے متنازع جوہر پروگرام کے متعلق کہنا تھا کہ تہران سمجھتا ہے کہ چھ عالمی طاقتوں سے جوہری تنازع کے حل پر 20 جولائی تک ایک مفصل معاہدہ ہو سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دیگر اختلافات خیرسگالی اور لچک کا مظاہرہ کرنے سے حل ہو جائیں گے۔