حقوق انسانی کے گروپوں اور امریکی محکمہٴخارجہ نے ایران سے مطالبہ کیا ہے کہ گذشتہ ہفتے گرفتار کیے گئے چار افراد کو رہا کیا جائے، جن میں ’واشنگٹن پوسٹ‘ کے تہران میں تعینات نمائندے، جیسن رضائیان اور دو دیگر صحافی بھی شامل ہیں۔
’ہیومن رائٹس واچ‘ نے منگل کے روز کہا کہ ایران اِن افراد کو فوری طور پر رہا کردے ، ماسوائے اِس امر کے کہ حکومت کے پاس اُن کے خلاف کوئی ’قابلِ ثبوت‘ الزامات موجود ہیں؛ اور اُنھیں ’منصفانہ مقدمے‘ کی کارروائی کا موقع دینے کا ارادہ رکھتی ہے۔
رضائیان امریکہ اور ایران کی دوہری شہریت رکھتے ہیں؛ جب کہ اُن کی بیوی، یگانے صالحی ایرانی شہری اور متحدہ عرب امارات سے نکلنے والے ایک روزنامے سے وابستہ نامہ نگار ہیں، جب کہ گرفتار کیے گئے دیگر دو افراد امریکی شہری ہیں۔
امریکی محکمہٴخارجہ کی خاتون ترجمان، جین ساکی نے پیر کے روز نامہ نگاروں کو بتایا کہ صورت حال کے بارے میں امریکہ کو ’تشویش‘ لاحق ہے، اور یہ کہ ایران اُنھیں فوری طور پر رہا کردے۔
پیرس میں قائم ’رپورٹرز وِداؤٹ بارڈرز‘ نے اس معاملے کو نمایاں طور پر پیش کیا ہے۔
ادارے نےاِس وقت ایران میں گرفتار 65 نمائندے، جن میں 10 خواتین بھی شامل ہیں، کے معاملے کو اٹھایا ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ ایران میں قید خواتین صحافیوں کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔
گروپ نے پیر کو جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا ہے کہ اُسے ’شدید تشویش لاحق ہے‘۔ گرفتاریوں کی اِس لہر نے، بقول اُس کے، میڈیا میں کام کرنے والی خواتین کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
ایک ایرانی اہل کار نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ رضائیان کو پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لیا گیا ہے، لیکن اس کی وضاحت نہیں کی گئی۔
’واشنگٹن پوسٹ‘ کے انتظامی ایڈیٹر، مارٹن بیرن نے کہا ہے کہ اخبار کے لیے یہ بات کسی ’معمے‘ سے کم نہیں، جب کہ گرفتاری پر اُسے ’شدید تشویش‘ ہے۔