واشنگٹن —
ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین تہران کے جوہری پروگرام پر مذاکرات کے نئے دور کا آغاز ہوگیا ہے۔
مذاکرات میں شریک سفارت کاروں کے مطابق مذاکرات کے پہلے روز جمعے کو کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی ہے اور فریقین اپنے اپنے موقف پر قائم ہیں۔
ایک سفارت کار نے ذرائع ابلاغ کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ قازقستان کے شہر الماتے میں ہونے والے مذاکرات کے ابتدائی دور میں ایرانی وفد نے 'پی5+1' ممالک کی پیش کش کا کوئی واضح اور ٹھوس جواب نہیں دیا جو انہوں نے فروری میں ہونے والے مذاکرات میں کی تھی۔
اس پیش کش میں ایران کو اپنی ایک جوہری تنصیب بند کرنے اور افزودہ شدہ یورینیم مغربی ممالک کے حوالے کرنے کے عوض بعض ایسی اشیا کی تجارت کی اجازت دینے کی تجویز دی گئی تھی جن کی تجارت پر اس وقت بین الاقوامی پابندی ہے۔
سفارت کار نے بتایا ہے کہ 'پی5+1' ممالک کی پیش کش کا کوئی ٹھوس جواب دینے کے بجائے ایران نے جمعے کو ہونے والے مذاکرات میں وہی تجاویز دہرائیں جو تہران اس سے قبل گزشتہ سال ماسکو میں ہونے والے مذاکرات میں پیش کرچکا ہے۔
'پی 5+1' گروپ میں سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان – امریکہ، روس۔ فرانس، برطانیہ اور چین – اور جرمنی شامل ہیں۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' نے ایران کےنائب مذاکرات کار علی بغیری کے حوالے سے بتایا ہے کہ تہران حکومت نے مذاکرات کا نیا 'فریم ورک' وضع کرنے پر زور دیا ہے۔
ایجنسی کے مطابق ایرانی مذاکرات کار نے بتایا کہ تہران نے "تعاون کے نئے دور کے آغاز کے لیے" عالمی طاقتوں کو " مخصوص اقدامات تجویز کردیے ہیں"۔
لیکن مغربی سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ ایران کا موقف تاحال واضح نہیں۔
الماتے میں مذاکرات کے آغاز سے ایک روز قبل ایران کے اعلیٰ ترین جوہری مذاکرات کار سعید جلیلی نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ایران کا یورینیم افزودہ کرنے کا حق تسلیم کرے۔
امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا الزام ہے کہ ایران جوہری ہتھیار تیار کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اسی مقصد کے لیے ایرانی جوہری تنصیبات میں یورینیم کو اعلیٰ سطح پر افزودہ کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
لیکن ایران کا اصرار رہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام سراسر پرامن مقاصد کے لیے ہے جس کی کوئی فوجی جہت نہیں۔
مذاکرات کے آغاز سے قبل امریکہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے واضح کیا تھا کہ عالمی طاقتیں اپنی پیش کش پر ایران سے "واضح اور ٹھوس" جواب چاہتی ہیں۔
امریکی عہدیدار نے اپنے بیان میں واضح کیا تھا کہ صدر براک اوباما ایران کے جوہری پروگرام پر تنازع کو سفارت کاری کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں لیکن انہوں نے دیگر "تمام آپشن" بھی کھلے رکھے ہیں۔
مذاکرات میں شریک سفارت کاروں کے مطابق مذاکرات کے پہلے روز جمعے کو کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی ہے اور فریقین اپنے اپنے موقف پر قائم ہیں۔
ایک سفارت کار نے ذرائع ابلاغ کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ قازقستان کے شہر الماتے میں ہونے والے مذاکرات کے ابتدائی دور میں ایرانی وفد نے 'پی5+1' ممالک کی پیش کش کا کوئی واضح اور ٹھوس جواب نہیں دیا جو انہوں نے فروری میں ہونے والے مذاکرات میں کی تھی۔
اس پیش کش میں ایران کو اپنی ایک جوہری تنصیب بند کرنے اور افزودہ شدہ یورینیم مغربی ممالک کے حوالے کرنے کے عوض بعض ایسی اشیا کی تجارت کی اجازت دینے کی تجویز دی گئی تھی جن کی تجارت پر اس وقت بین الاقوامی پابندی ہے۔
سفارت کار نے بتایا ہے کہ 'پی5+1' ممالک کی پیش کش کا کوئی ٹھوس جواب دینے کے بجائے ایران نے جمعے کو ہونے والے مذاکرات میں وہی تجاویز دہرائیں جو تہران اس سے قبل گزشتہ سال ماسکو میں ہونے والے مذاکرات میں پیش کرچکا ہے۔
'پی 5+1' گروپ میں سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان – امریکہ، روس۔ فرانس، برطانیہ اور چین – اور جرمنی شامل ہیں۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' نے ایران کےنائب مذاکرات کار علی بغیری کے حوالے سے بتایا ہے کہ تہران حکومت نے مذاکرات کا نیا 'فریم ورک' وضع کرنے پر زور دیا ہے۔
ایجنسی کے مطابق ایرانی مذاکرات کار نے بتایا کہ تہران نے "تعاون کے نئے دور کے آغاز کے لیے" عالمی طاقتوں کو " مخصوص اقدامات تجویز کردیے ہیں"۔
لیکن مغربی سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ ایران کا موقف تاحال واضح نہیں۔
الماتے میں مذاکرات کے آغاز سے ایک روز قبل ایران کے اعلیٰ ترین جوہری مذاکرات کار سعید جلیلی نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ایران کا یورینیم افزودہ کرنے کا حق تسلیم کرے۔
امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا الزام ہے کہ ایران جوہری ہتھیار تیار کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اسی مقصد کے لیے ایرانی جوہری تنصیبات میں یورینیم کو اعلیٰ سطح پر افزودہ کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
لیکن ایران کا اصرار رہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام سراسر پرامن مقاصد کے لیے ہے جس کی کوئی فوجی جہت نہیں۔
مذاکرات کے آغاز سے قبل امریکہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے واضح کیا تھا کہ عالمی طاقتیں اپنی پیش کش پر ایران سے "واضح اور ٹھوس" جواب چاہتی ہیں۔
امریکی عہدیدار نے اپنے بیان میں واضح کیا تھا کہ صدر براک اوباما ایران کے جوہری پروگرام پر تنازع کو سفارت کاری کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں لیکن انہوں نے دیگر "تمام آپشن" بھی کھلے رکھے ہیں۔