لندن —
اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان اور جرمنی، جمعے کے روز واپس الماتے، قزاقستان پہنچ رہے ہیں تا کہ ایران کے ساتھ اس کے نیوکلیئر پروگرام پر مذاکرات کر سکیں۔
مغربی ممالک اور ایران کا کہنا ہے کہ ایران آہستہ آہستہ نیوکلیئر ہتھیار بنانے کی صلاحیت حاصل کرنے کے قریب پہنچ رہا ہے۔ مغربی ملکوں کے عہدے داروں کو امید ہے کہ ایران ان کی تازہ ترین پیشکش کا مثبت جواب دے گا۔
اس ہفتے مذاکرات کرنے والوں کے سامنے سوال یہ ہے کہ ایران اپنے موقف میں کس حد تک تبدیلی لانے کو تیار ہے؟ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی چیف کیتھرین اشٹون کہتی ہیں ’’ میں ہمیشہ محتاط انداز میں پُر امید رہتی ہوں ۔ لیکن میں یہ بھی جانتی ہوں کہ یہ بات بہت اہم ہے کہ ہمیں ایران سے کوئی جواب ملے۔‘‘
الماتے میں مذاکرات کے پہلے دور میں جو فروری میں ہوا تھا، P5+1 کے گروپ کے ملکوں نے اس امکان کی پیشکش کی تھی کہ بعض بین الاقوامی پابندیاں نرم کی جا سکتی ہیں ۔ اس کے جواب میں، ایران کو اعلیٰ گریڈ کے یورینیم کی افژودگی پر کام روکنا ہو گا۔ اس قسم کا یورینیم ایٹم بم میں استعمال ہو سکتا ہے۔
امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری نے کہا ہے’’ان کے پاس یہ موقع ہے کہ وہ قوموں کی برادری میں دوبارہ شامل ہو سکتے ہیں، اور اپنی تنہائی کی موجودہ کیفیت سے نکل سکتے ہیں۔‘‘
انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹجک اسٹڈیز کے تجزیہ کار مارک فٹزپیٹرک کہتے ہیں کہ ایرانی پہلے بھی حیلوں بہانوں سے کام لیتے رہے ہیں۔ ’’امید یہ کرنی چاہیئے کہ اس بار وہ کوئی ٹھوس تجویز میز پر رکھیں گے بجائے اس کے کہ وہ گذشتہ گرمیوں کی طرح کوئی منصوبہ پیش کریں جس میں انھوں نے ہم سے تو ہر چیز طلب کی، اور وہ خود کچھ بھی دینا نہیں چاہتے تھے۔‘‘
مغربی ملکوں کے عہدے دار یہ بات واضح کرتے رہے ہیں کہ تہران کے پاس اب مزید جوڑ توڑ کی گنجائش نہیں ہے۔ صدر براک اوباما نے بھی یہی کہا ہے ۔ ’’تمام ممکنہ حل سامنے رکھ دیے گئے ہیں ۔ ہم ایران کو دنیا کے بد ترین ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے کے لیے، ہر وہ اقدام کریں گے جو ضروری ہو گا۔‘‘
انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کی گذشتہ مہینے کی میٹنگ میں، ایران کے سفیر علی اصغر سلطانیہ نے اشارہ دیا کہ ایران بس ایک حد تک جا سکتا ہے ۔ ’’ہم نے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے ساتھ اپنا مکالمہ جاری رکھنے کا عہد کیا ہے، اور اس عہد میں کبھی کوئی لغزش نہیں آئی، لیکن اس کے ساتھ ہی ، ہم یہ نہیں کر سکتے کہ کسی کو اپنی قومی سلامتی سے کھیلنے کی کھلی چھٹی دے دیں ۔ کوئی بھی ملک ایسا نہیں کرے گا۔‘‘
آنے والے مذاکرات، اور ایران کی حکمت عملی پر ایک اور چیز اثر انداز ہو رہی ہے، اور وہ ہے شمالی کوریا کی طرف سے جنگ کی دھمکیاں۔ شمالی کوریا نے امریکہ کو اگلا پچھلا حساب چکا نے کی دھمکی دی ہے۔
آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن کے گریک ٹِیل مین کہتے ہیں’’ ہو سکتا ہے کہ اپنی حکومت کے معاملات میں ایران کا رویہ نا خوشگوار ہو، اور مذاکرات میں وہ مشکل موقف اختیار کریں، لیکن اگر ان کا موازنہ شمالی کوریا سے کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ یہ عمل کہیں زیادہ معقولیت پر مبنی ہے اور ان کے ساتھ بات چیت ممکن ہے۔
بہت سے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ایران کے ساتھ زیادہ سے زیادہ جس بات کی امید کی جا سکتی ہے وہ یہ ہے مزید بات چیت ہوگی، اگرچہ امکان یہی ہے کہ اس کے لیے ایران میں جون کے انتخابات کے بعد تک انتظار کرنا پڑے گا۔
مغربی ممالک اور ایران کا کہنا ہے کہ ایران آہستہ آہستہ نیوکلیئر ہتھیار بنانے کی صلاحیت حاصل کرنے کے قریب پہنچ رہا ہے۔ مغربی ملکوں کے عہدے داروں کو امید ہے کہ ایران ان کی تازہ ترین پیشکش کا مثبت جواب دے گا۔
اس ہفتے مذاکرات کرنے والوں کے سامنے سوال یہ ہے کہ ایران اپنے موقف میں کس حد تک تبدیلی لانے کو تیار ہے؟ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی چیف کیتھرین اشٹون کہتی ہیں ’’ میں ہمیشہ محتاط انداز میں پُر امید رہتی ہوں ۔ لیکن میں یہ بھی جانتی ہوں کہ یہ بات بہت اہم ہے کہ ہمیں ایران سے کوئی جواب ملے۔‘‘
الماتے میں مذاکرات کے پہلے دور میں جو فروری میں ہوا تھا، P5+1 کے گروپ کے ملکوں نے اس امکان کی پیشکش کی تھی کہ بعض بین الاقوامی پابندیاں نرم کی جا سکتی ہیں ۔ اس کے جواب میں، ایران کو اعلیٰ گریڈ کے یورینیم کی افژودگی پر کام روکنا ہو گا۔ اس قسم کا یورینیم ایٹم بم میں استعمال ہو سکتا ہے۔
امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری نے کہا ہے’’ان کے پاس یہ موقع ہے کہ وہ قوموں کی برادری میں دوبارہ شامل ہو سکتے ہیں، اور اپنی تنہائی کی موجودہ کیفیت سے نکل سکتے ہیں۔‘‘
انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹجک اسٹڈیز کے تجزیہ کار مارک فٹزپیٹرک کہتے ہیں کہ ایرانی پہلے بھی حیلوں بہانوں سے کام لیتے رہے ہیں۔ ’’امید یہ کرنی چاہیئے کہ اس بار وہ کوئی ٹھوس تجویز میز پر رکھیں گے بجائے اس کے کہ وہ گذشتہ گرمیوں کی طرح کوئی منصوبہ پیش کریں جس میں انھوں نے ہم سے تو ہر چیز طلب کی، اور وہ خود کچھ بھی دینا نہیں چاہتے تھے۔‘‘
مغربی ملکوں کے عہدے دار یہ بات واضح کرتے رہے ہیں کہ تہران کے پاس اب مزید جوڑ توڑ کی گنجائش نہیں ہے۔ صدر براک اوباما نے بھی یہی کہا ہے ۔ ’’تمام ممکنہ حل سامنے رکھ دیے گئے ہیں ۔ ہم ایران کو دنیا کے بد ترین ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے کے لیے، ہر وہ اقدام کریں گے جو ضروری ہو گا۔‘‘
انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کی گذشتہ مہینے کی میٹنگ میں، ایران کے سفیر علی اصغر سلطانیہ نے اشارہ دیا کہ ایران بس ایک حد تک جا سکتا ہے ۔ ’’ہم نے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے ساتھ اپنا مکالمہ جاری رکھنے کا عہد کیا ہے، اور اس عہد میں کبھی کوئی لغزش نہیں آئی، لیکن اس کے ساتھ ہی ، ہم یہ نہیں کر سکتے کہ کسی کو اپنی قومی سلامتی سے کھیلنے کی کھلی چھٹی دے دیں ۔ کوئی بھی ملک ایسا نہیں کرے گا۔‘‘
آنے والے مذاکرات، اور ایران کی حکمت عملی پر ایک اور چیز اثر انداز ہو رہی ہے، اور وہ ہے شمالی کوریا کی طرف سے جنگ کی دھمکیاں۔ شمالی کوریا نے امریکہ کو اگلا پچھلا حساب چکا نے کی دھمکی دی ہے۔
آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن کے گریک ٹِیل مین کہتے ہیں’’ ہو سکتا ہے کہ اپنی حکومت کے معاملات میں ایران کا رویہ نا خوشگوار ہو، اور مذاکرات میں وہ مشکل موقف اختیار کریں، لیکن اگر ان کا موازنہ شمالی کوریا سے کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ یہ عمل کہیں زیادہ معقولیت پر مبنی ہے اور ان کے ساتھ بات چیت ممکن ہے۔
بہت سے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ایران کے ساتھ زیادہ سے زیادہ جس بات کی امید کی جا سکتی ہے وہ یہ ہے مزید بات چیت ہوگی، اگرچہ امکان یہی ہے کہ اس کے لیے ایران میں جون کے انتخابات کے بعد تک انتظار کرنا پڑے گا۔