ایران نے اپنے بیلسٹک میزائل پروگرام کو روکنے سے متعلق یورپی دباؤ مسترد کر دیا ہے۔ حال ہی میں تین یورپی طاقتوں نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گٹریس کو ایک خط میں تہران پر الزام لگایا تھا کہ وہ جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت کے حامل اپنے میزائل پروگرام کو ترقی دے رہا ہے جو سلامتی کونسل کی قرارداد کے برعکس ہے۔
اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے لیے برطانیہ، جرمنی اور فرانس کے سفیروں نے بدھ کے روز ایک خط جاری کیا جس میں انہوں نے کہا ہے کہ تہران کا میزائل پروگرام 2015 میں ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے سے متعلق اقوام متحدہ کی ایک قرارداد سے ہم آہنگ نہیں ہے۔
ایران نے اپنے ردعمل میں دو ٹوک انداز میں کہا ہے کہ وہ اپنا متنازع بیلسٹک میزائل پروگرام جاری رکھے گا جس کے متعلق وہ پہلے ہی کئی بار یہ دعویٰ کر چکا ہے کہ اس کا میزائل پروگرام دفاعی مقاصد کے لیے ہے اور میزائل پروگرام کا جوہری پیش رفت کے معاملے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
برطانیہ، جرمنی اور فرانس کے سفیروں کا خط ایک ایسے موقع پر منظر عام پر آیا ہے جب ایران اور مغرب کے درمیان تناؤ بڑھا ہوا ہے۔ تہران واشنگٹن کی جانب سے جوہری معاہدے سے علیحدگی اور دوبارہ پابندیاں لگائے جانے کے بعد رفتہ رفتہ جوہری معاہدے میں اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹ رہا ہے۔
امریکہ کی سخت ترین اقتصادی پابندیوں سے ایران کی معیشت کو شدید دھچکا لگا ہے اور بیرونی دنیا سے اس کے زیادہ تر کاروباری رابطے ٹوٹ چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کی 2015 کی ایک قرارداد میں ایران سے کہا گیا ہے کہ وہ آٹھ سال تک بیلسٹک میزائل پر کام کرنے سے باز رہے، کیونکہ یہ میزائل جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
روس سمیت کئی ممالک کا یہ کہنا ہے کہ سیکیورٹی کونسل کی قرارداد کی زبان اس پابندی کو لازمی قرار نہیں دیتی۔
سیکیورٹی کونسل کا اجلاس 20 دسمبر کو متوقع ہے جس میں جوہری معاہدے کے حوالے سلامتی کونسل کی قرارداد اور یورپی ملکوں کے خط پر بحث مباحثے کا مکان ہے۔
امریکہ اور مشرق وسطیٰ میں اس کے اتحادی ممالک ایران کے میزائل پروگرام کو خطے کی سلامتی کے لیے ایک خطرہ سمجھتے ہیں۔