ایران کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ وہ عالمی طاقتوں کے ساتھ 2015 کے جوہری معاہدے پر دوبارہ گفت و شنید نہیں کرے گا۔
ایرانی وزیر خارجہ کا یہ بیان صدر ٹرمپ کی جانب سے اس ڈیڈ لائن سے محض ایک روز پہلے سامنے میں آیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ امریکہ اب یہ طے کرے گا کہ آیا وہ ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق معاہدے کے ساتھ رہنا چاہتا ہے یا نہیں۔
ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف کے یوٹیوب پر بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم نہ تو اپنی سیکیورٹی بیرونی ٹھیکے پر دیں گے اور نہ ہی معاہدے پر دوبارہ مذاکرات کریں گے اور نہ ہی اس معاہدے میں کسی چیز کا اضافہ کریں گے جس پر ہم پہلے سے ہی نیک نیتی سے عمل کر رہے ہیں۔
صدر ٹرمپ یہ کہہ چکے ہیں اگر معاہدے میں ترمیم اور اصلاح نہ کی گئی تو وہ اس سے الگ ہو جائیں گے۔ اس ترمیم میں ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام کو محدود کرنا بھی شامل ہے جس کے متعلق ایران کا یہ موقف ہے کہ وہ اسے اپنے ایک دفاعی ہتھیار کے طور پر برقرار رکھنا چاہتا ہے۔
ایک اور خبر کے مطابق ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے خارجہ امور کے مشیر نے جمعرات کے روز خبردار کیا ہے کہ اگر صدر ٹرمپ معاہدے سے الگ ہونے کی اپنی دھمکی پر آگے بڑھتے ہیں تو ایران معاہدے سے نکل جائے گا۔
علی اکبر ولایتی نے ایران کے سرکاری ٹیلی وژن کی ویب سائٹ پر اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اگر امریکہ معاہدے سے الگ ہو جاتا ہے تو پھر ہم بھی اس پر قائم نہیں رہیں گے۔
ولایتی نے پابندیوں میں رعایت کے بدلے معاہدے پر دوبارہ مذاکرات کے کسی بھی عمل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ایران جوہری معاہدے کو صرف اسی حالت میں قبول کرے گا جیسے یہ طے کیا گیا تھا اور ہم اس معاہدے میں کسی اضافے یا کمی کو قبول نہیں کریں گے۔
صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کی جانب سے ایران کے اس بیان پر فوری طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔
معاہدے میں شامل تین یورپی ممالک ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی کئی بار یہ کوشش کر چکے ہیں کہ صدر ٹرمپ معاہدے میں شامل رہیں۔
چین اور روس نے بھی اس معاہدے پر دستخط کیے ہیں ۔ دستخط کرنے والے تمام ملک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے رکن ہیں۔