ایسے میں جب ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان تاریخی سمجھوتا طے ہونے کی حتمی تاریخ میں محض چند ہفتے باقی رہ گئے ہیں، ایرانی جوہری مذاکرات کاروں کے قریبی سفارتی ذرائع نے کہا ہے کہ پیش رفت کی رفتار خاصی سست دکھائی دیتی ہے۔
ذرائع نے روسی خبر رساں اداروں کو بتایا ہے کہ یہ سست روی پریشانی کی باعث ہے، کیونکہ 30 جون کی ڈیڈلائن سے قبل مذاکرات کی حتمی تاریخ قریب آتی جا رہی ہے۔
بات چیت کا تازہ ترین دور جمعے کو ویانا میں ہوا۔
ایران اس بات پر بضد ہے کہ نئے سمجھوتے کے ایک حصے کے طور پر، بین الاقوامی معائنہ کاروں کو ملک کی فوجی تنصیبات تک رسائی نہیں دی جا سکتی۔ اِن تنصیبات کا معائنہ مغربی ملکوں کا ایک کلیدی مطالبہ ہے۔
ڈیری کِمبل ’آرمز کنٹرول ایسو سی ایشن‘ کے سربراہ ہیں۔ اُنھوں نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا ہے کہ مذاکرات کار جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے تک رسائی دینے کے سلسلے میں سودے بازی کی کوشش کر رہے ہیں۔
کِمبل کے بقول، ایران کو اس بات پر تشویش ہے کہ یہ رسائی کسی انتظام کے بغیر نہیں ہے؛ اور عالمی طاقتوں ’پلس ون‘ یہ بات یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ ایران اِن تنصیبات کو خفیہ نہیں رکھ سکتا‘۔
اس لیے، اُن کا کہنا تھا کہ وہ تشویش والے مقامات تک ’انتظامی رسائی‘ پر بات چیت کرنا چاہیں گے، جن میں فوجی تنصیبات بھی شامل ہیں۔
کِمبل نے کہا کہ دونوں فریق 30 جون کی حتمی تاریخ پر ایک دیرپہ سمجھوتے تک پہنچنے کی جستجو کر رہے ہیں۔
بقول کِمبل، دونوں فریق یہ کوشش کریں گے کہ اس ضمن میں کچھ مراعات حاصل کریں، تاکہ وہ بہتر سے بہتر سمجھوتے تک پہنچ پائیں۔
لیکن، بنیادی طور پر جس سمجھوتے پر پہنچنے کی وہ کوشش کر رہے ہیں، اُس کی بدولت ایران کےجوہری ہتھیاروں کے حصول تک ایران کی رسائی روک دی جائے گی، جو یورینئم کا راستا، پلوٹینیم کا راستہ، اور ناجائز طریقہٴکار کا راستہ سب شامل ہیں۔
اور یہ کہ، اس سلسلے میں ’نگرانی کا غیرمعمولی اور قابل اعتماد پروگرام وضع کیا جائے گا جس کی مدد سے آئندہ ایک عشرے کے دوران ایران کی جانب سے سمجھوتے کی کسی ممکنہ خلاف ورزی کو روکا جاسکے گا‘۔
واشنگٹن میں، محکمہٴخارجہ نے کہا ہے کہ ’ایران کو ضروری رسائی فراہم کرنا ہوگی‘۔ ترجمان، جیف رتھکے کے بقول، ’ایران کو سمجھوتا طے کرتے وقت ضروری رسائی دینا ہوگی، جس کے بغیر ہم تعزیرات میں نرمی کے معاملے پر آگے نہیں بڑھ سکیں گے‘۔