اقوام متحدہ کے نگراں ادارے برائے جوہری توانائی نے جمعرات کو کہا ہے کہ ایران 2015ء کے بین الاقوامی سمجھوتے کے تحت لاگو پابندیوں پر عمل درآمد کر رہا ہے۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے امریکہ کو معاہدے سے الگ کرنے کے بعد معائنہ کاروں کی جانب سے پیش کردہ یہ پہلا تخمینہ ہے۔
جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے نے کہا ہے کہ جس سطح تک یورینیم کی افزودگی، افزودہ یورینئم کو ذخیرہ کرنے اور دیگر سرگرمیاں طے کی گئی تھیں، ایران اُن حدود کی پاسداری کر رہا ہے۔
تاہم، اقوام متحدہ نے معائنے کی ’’لازمی رسائی‘‘ کو محدود کرنے پر ایران کی سرزنش کی ہے۔
اقوام متحدہ کا یہ تخمینہ ایسے میں سامنے آیا ہے جب جوہری سمجھوتے کی نئی شرائط پر مذاکرات کے لیے اسلامی جمہوریہ کو پھر سے مذاکرات کی میز پر لانے، اس کے بیلسٹک میزائل تجربات کو بند کرانے اور مشرق وسطیٰ کی جانب اس کی فوجی پیش قدمی کو روکنے پر مجبور کرنے کے لیے امریکہ نے نئی تعزیرات عائد کرنے کی دھمکی دی ہے۔
امریکہ کا کہنا ہے کہ آئندہ مہینوں کے دوران وہ تعزیرات کو دوبارہ عائد کرے گا، جو پابندیاں دیگر ملکوں نے اُس وقت ختم کردی تھیں جب ایران نے اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرنے سے اتفاق کیا تھا، جس سے ایرانی معیشت کو دشواری کا سامنا تھا۔ لیکن، ایران جوہری معاہدے پر دستخط کرنے والے دیگر پانچ ملکوں برطانیہ، فرانس، جرمنی، چین اور روس سب نے کہا ہے کہ وہ سمجھوتے کی حمایت جاری رکھیں گے۔