رسائی کے لنکس

ایرانی گلوکار توماج صالحی کی سزائے موت کالعدم، سپریم کورٹ کا دوبارہ مقدمہ چلانے کا حکم


استنبول میں ایرانی گلوکار توماج صالحی کی گرفتاری کے خلاف ایک مظاہرے میں شامل ایک شخص نے صالحی کی تصویر اٹھا رکھی ہے۔
استنبول میں ایرانی گلوکار توماج صالحی کی گرفتاری کے خلاف ایک مظاہرے میں شامل ایک شخص نے صالحی کی تصویر اٹھا رکھی ہے۔
  • توماج صالحی کو ایک ایرانی عدالت نے موت کی سزا سنائی تھی۔
  • توماج پر ملک کے خلاف سازش کرنے، شورش پھیلانے اور زمین پر بدعنوانی سمیت کئی الزامات عائد کیے گئے تھے۔
  • توماج ایک مقبول ریپر گلوکار ہیں۔
  • گلوکار کو سنائی گئی سزاؤں کا تعلق ایرانی پولیس کی حراست میں مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد شروع ہونے والے مظاہروں سے ہے، جن میں ہزاروں افراد گرفتار ہوئے اور نو کو پھانسی دی گئی۔

ویب ڈیسک_ ایران کی سپریم کورٹ نے ایک مقبول ریپر گلوکار توماج صالحی کو سنائی گئی موت کی سزا کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔ گلوکار کو مہسا امینی نامی خاتون کی پولیس حراست کے دوران ہلاکت کے بعد ملک گیر احتجاج کی حمایت کرنے پر جیل بھیجا گیا تھا۔

توماج کے وکیل امیر رئیسیان نے سماجی رابطے کے پلیٹ فارم 'ایکس' پر اپنی ایک پوسٹ میں کہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ کی اعلیٰ ترین عدالت نے ان کے مؤکل کی موت کی سزا پلٹ دی ہے اور دوبارہ مقدمہ چلانے کا حکم دیا ہے۔

وکیل رئیسیان کے مطابق اپریل میں ایران کی ایک عدالت نے توماج صالحی کو زمین پر بدعنوانی پھیلانے کے جرم میں موت کی سزا سنائی تھی۔

وکیل نے کہا تھا کہ ایرانی عدالت نے صالحی کو بغاوت میں معاونت، سازش، ریاست کے خلاف پراپیگنڈہ کرنے اور فساد پھیلانے کی اپیل کرنے کا بھی قصوروار قرار دیا تھا۔

وکیل صفائی رئیسان نے بتایا، کہ سپریم کورٹ نے ایک ناقابلِ تلافی عدالتی غلطی کو وقوع پذیر ہونے سے روک دیا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ اس سے قبل صالحی کی چھ سال اور تین ماہ کی سزا بھی جرائم کی تعداد اور تنوع کے قوانین سے متعلق قواعد سے مطابقت نہیں رکھتی۔

گلوکار صالحی کی عمر 33 برس ہے جنہیں اکتوبر 2022 کو مظاہروں کی اعلانیہ حمایت کرنے کے بعد حراست میں میں لیا گیا تھا۔ یہ مظاہرے مہسا امینی نامی خاتون کی پولیس حراست میں ہلاکت کے خلاف ملک بھر میں ہو رہے تھے۔

بائیس سالہ امینی ایک کرد خاتون تھیں جنہیں تہران میں اخلاقیات سے متعلق پولیس نے اس الزام میں گرفتار کیا تھا کہ اس نے خواتین کے لیے ریاست کے مقرر کردہ لباس کے قوائد کے تحت اپنے سر کو ڈھانپا ہوا نہیں تھا۔

مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد شروع ہونے والے مظاہرے مہینوں تک جاری رہے جن میں درجنوں سیکیورٹی اہل کاروں سمیت سینکڑوں افراد مارے گئے تھے جب کہ ہزاروں افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔

ایرانی حکام نے ان مظاہروں کو 'غیر ملکی ایما' پر فسادات کا نام دیا تھا۔

ایران کی ایک عدالت نے رواں برس جنوری میں ایک گلوکار مہدی یراحی کو خواتین کے لیے سر پر اسکارف کی شرط پر تنقید کرنے کے الزام سمیت دیگر کئی الزامات میں دو سال اور آٹھ ماہ کی قید کی سزا سنائی تھی۔

عدالت نے یراحی کی صحت کے مسائل کے پیش نظر ان کی جیل کی سزا کو گھر میں قید سے تبدیل کر دیا تھا۔

مہسا امینی کی ہلاکت سے منسلک مظاہروں کے سلسلے میں چلائے جانے والے مقدمات میں نو افراد کو پھانسی کی سزائیں دی گئیں تھیں۔

سن 1979 کے ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد 1983 میں ملک میں خواتین کا سر ڈھانپنا لازمی قرار دیا گیا تھا۔

ایرانی میڈیا نے حالیہ ہفتوں میں کہا ہے کہ دارالحکومت میں پولیس نے ڈریس کوڈ کی خلاف ورزی روکنے کے لیے 'نور' کے نام سے ایک نئی مہم شروع کی ہے۔

حکام نے ایسے کیفے اور ریستوراں بھی بند کر دیے ہیں جہاں حجاب پہننے کی پابندی نہیں کی جا رہی تھی۔

ایران کی پارلیمنٹ نے ایک نئے قانونی مسودے کی منظوری دی ہے جس میں خواتین کے لباس کے قوانین کی پابندی نہ کرنے پر سخت سزائیں دینے کا کہا گیا ہے۔

اس رپورٹ کی تفصیلات خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' سے لی گئی ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG