ایران کی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ تہران اور چھ عالمی طاقتوں کے 2015 کے جوہری معاہدے پر بات چیت میں نمایاں پیش رفت ہوئی ہے لیکن اہم امور ابھی حل طلب ہیں۔
ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان اپریل سے بات چیت ہو رہی ہے تاکہ ایسے پہلو تلاش کیے جا سکیں جن کی مدد سے واشنگٹن کی جانب سے تہران پر پابندیوں کا معاملہ اور اس کی جوہری سرگرمیاں مکمل طور پر جوہری معاہدے کے تابع ہو سکیں۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق سعید خطیب زادہ نے ٹیلی وژن پر دکھائی جانے والی ہفتہ وار نیوز کانفرنس میں بتایا کہ ویانا میں جاری مذاکرات کا ہر دور حتمی رہا ہے۔ ہمیں جلد بازی نہیں کرنی چاہیے۔ ہم بات چیت میں نمایاں پیش رفت کر چکے ہیں۔ لیکن اہم امور ابھی حل ہونا باقی ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ویانا مذاکرات میں کسی طرح کا کوئی تعطل نہیں ہے۔
تین سال قبل سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے نکلنے اور اس پر دوبارہ پابندیاں لگانے کے بعد سے تہران اپنی کم افزودہ یورینیم کو پراسس کر کے زیادہ افزودہ ذخائر میں تبدیل اور جوہری پیداوار بڑھانے کے لیے جدید سینٹری فیوجز نصب کر رہا ہے۔
صدر جو بائیڈن کہہ چکے ہیں کہ اگر تہران جوہری معاہدے میں عائد شرائط کی جانب لوٹنے میں پہل کرتا ہے، جس کا مقصد جوہری بم بنانے سے روکنا ہے تو واشنگٹن دوبارہ جوہری معاہدے میں شامل ہو سکتا ہے۔
خطیب زادہ کا کہنا تھا کہ تمام پابندیاں اٹھائی جائیں اور پھر ایران سے اس کی تصدیق کرائی جائے۔ اس کے بعد ایران اپنے جوہری اقدامات پلٹ دے گا۔
خطے سے تعلق رکھنے والے ایک سفارت کار نے، جسے مذاکرات سے آگاہی رکھنے والے مغربی عہدے داروں نے بریفنگ دی ہے، بتایا ہے کہ اس ہفتے ویانا میں ایک معاہدے کا اعلان متوقع ہے جس میں آگے بڑھنے کے لیے تہران اور واشنگٹن کی ذمہ داریوں کی وضاحت ہو گی۔