ایرانی میڈیا کی ایک رپورٹ میں ایک اعلیٰ فوجی کمانڈر کے حوالے سے کہا ہے کہ یوکرین کے خلاف ، روس کی جانب سے استعمال کئےجانےوالےایرانی ساختہ ڈرونز کی کامیابی یہ ظاہر کرتی ہے کہ بغیر پائلٹ چلنے والے یہ فضائی طیارے کس قدر مؤثر اور کارآمد ہیں۔
یوکرین اور اس کے مغربی اتحادی روس پر یہ الزام لگا رہے ہیں کہ وہ فروری میں یوکرین پر حملے کے آغاز کے بعد کئی مہینوں سے یوکرین پر ایرانی ساختہ ڈورنز سے حملے کر رہا ہے جس سے شہری انفرا اسٹرکچر اور بجلی کی تنصیبات کو بھاری نقصان پہنچا ہے۔
بم برسانے والے ڈرونز کے استعمال کے رد عمل میں مغربی ممالک نے روس کے ساتھ ساتھ ایران کی مسلح افواج کے چیف آف سٹاف میجر جنرل محمد باقری سمیت کئی ایرانی کمپنیوں اور فوجی جرنیلوں پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
ایران نے ابتدا میں کئی بار اس الزام سے انکار کیا تھا کہ اس نے روس کو جنگ میں استعمال ہونے والے ڈرون فراہم کیے ہیں، لیکن بعدمیں نومبر کے اوائل میں اس نے روس کو ہلاکت خیز ڈرونز فراہم کرنے کا اعتراف کرتے ہوئےکہا کہ اس نے یہ ڈورن یوکرین کی جنگ شروع ہونے سے پہلے فروخت کیے تھے۔
خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق،جنرل باقری نے یوکرین کی جنگ میں ایرانی ڈرونز کے استعمال کے حوالے سے مغربی طاقتوں کے الزامات کاذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی فضا پیدا کرنا دشمن کی نفسیاتی جنگ کا حصہ ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگرچہ دشمن کے بہت سے دعوےٰ غلط ہو سکتے ہیں لیکن اس سے یہ حقیقت ظاہر ہوتی ہے کہ اعلیٰ معیار کے ڈرون بنانے کے میدان میں اسلامی جمہوریہ ایران اعلیٰ مقام پر فائز ہے۔
اس سے قبل امریکہ اور اسرائیل تہران پر یہ الزام لگاتے رہے ہیں کہ تہران اپنی پراکسی جنگوں کے لیے لبنان کی حزب اللہ، شام کے صدر بشار الأسد کی حکومت اور یمن کے حوثی باغیوں کو ڈرون فراہم کرتا ہے۔
ایران نے اپنے پڑوسی ملک عراق کے خلاف آٹھ روزہ جنگ کے دوران 1980 کی دہائی میں ڈرونز کی تیاری کا آغاز کیا تھا۔
باقری نے کہا ہے کہ ایران ڈرونز کی تیاری جاری رکھے گا۔
خبررساں ادارے تسنیم نے جنرل باقری کے حوالے سے کہا ہے کہ ہمارےڈرونز اپنے سسٹم کی درستگی، پائیداری اور آپریشن کے تسلسل اور مشن کو انجام دینے کے لحاظ سے دنیا بھر میں اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔ ہم اپنے ڈرونز کی تیاری میں پیش رفت اور اس سلسلے میں دوسرے ممالک کے ساتھ تعاون جاری رکھیں گے۔
(اس رپورٹ کے لیے کچھ معلومات اے ایف پی سے لی گئی ہیں)