ایران کے متنازع نیوکلیئر پروگرام کو روکنے کی کوشش کے طور پر، امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک ہفتے کے روز استنبول میں ایران کے ساتھ مذاکرات کے لیے ملیں گے۔ یہ مذاکرات ایسے وقت ہو رہےہیں جب یہ تشویش بڑھتی جا رہی ہے کہ ایران جلد ہی نیوکلیئر ہتھیار تیار کرنے کے قابل ہو جائے گا۔
ایک سال سے زیادہ عرصے میں یہ پہلا موقع ہو گا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان اور جرمنی ، نیوکلیئر مسئلے پر مذاکرات کرنے والے ایرانیوں سے ملیں گے۔
ان مذاکرات میں بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے کیوں کہ تہران کے نیوکلیئر پروگرام کی وجہ سے دنیا بھر میں جو کشیدگی پیدا ہو گئی ہے ، اسے ختم کرنے کے لیے ان مذاکرات کو آخری موقع سمجھا جا رہا ہے۔ ایرانی لیڈروں کا کہنا ہے کہ وہ نیوکلیئر ہتھیار حاصل کرنا نہیں چاہتے۔
امریکی وزیرِ خارجہ ہلری کلنٹن نے بعض ایسے طریقے تجویز کیے ہیں جن کے ذریعے ایران بین الاقوامی برادری کے وسوسے دور کر سکتا ہے۔
’’کئی طریقے ہیں جن کے ذریعے سرکاری پالیسی کا اظہار کیا جا سکتا ہے ۔ یورینیم کو بیس فیصد کی حد تک افژودہ کرنے کو ختم کر کے، اعلیٰ قسم کے افژودہ شدہ یورینیم کو ملک سے باہر بھیج کر، مسلسل معائنے اور تصدیق کی سہولتوں کی فراہمی سے‘‘۔
اطلاعات کے مطابق امریکہ اور اس کے مغربی اتحادی یہ مطالبہ کریں گے کہ ایران ’فرودو‘ میں اپنے یورینیم افژودہ کرنے کے پلانٹ کو بند کردے۔ یہ پلانٹ قُم کے مقدس شہر کے نزدیک ایک پہاڑ کے نیچے بنایا گیا ہے۔
ایران کے سینٹرل بنک پر بعض انتہائی سخت نئی پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں اور یورپی یونین نے یکم جولائی سے ایران کے تیل پر پابندی لگانے کا وعدہ کیا ہے۔ لیکن ایران کے صدر محمود احمدی نژاد نے کہا ہے کہ ان کا ملک بیرونی دباؤ کے سامنے سر نہیں جھکائے گا۔
’’وہ ہماری تیل کی برآمدات پر پابندی لگانا چاہتے ہیں۔ ہمارے پاس اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے غیر ملکی کرنسی موجود ہے۔ اگر ہم اگلے دو تین برسوں تک ایک بیرل تیل بھی نہ بیچیں، تو بھی ہم اچھی طرح گزارا کر سکتے ہیں۔ ہمارے دشمنوں کے خواب کبھی پورے نہیں ہوں گے۔‘‘
لیکن تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ایرا ن پر زبردست دباؤ پڑ رہا ہے اور مذاکرات کے دوران امریکہ اپنا زبردست اثر و رسوخ استعمال کر سکتا ہے ۔ واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی کے مینیجنگ ڈائریکٹر، مائیکل سنگھ کہتے ہیں کہ ’’مجھے امید ہے کہ ان مذاکرات سے یہ حکمت عملی صحیح ثابت ہو جائے گی کہ سفارتکاری کے ساتھ ساتھ دباؤ بھی ڈالا جائے تاکہ ایرانی اپنا لائحۂ عمل تبدیل کر دیں، اور وہ اس نیوکلیئر مسئلے کے بارے میں اپنا طریقہ تبدیل کر دیں‘‘۔
اگرچہ تجزیہ کاروں کو امید ہے کہ سفارتکاری کامیاب ہو گی لیکن بیشتر لوگ مذاکرات کی کامیابی کے بارے میں پُر امید نہیں ہیں۔ بروکنگز انسٹی ٹیوشن کے سینیئر فیلو مائیکل اوہینلون کہتے ہیں کہ ’’میرے خیال میں یہ بات خاصی واضح ہے کہ ایران کو باہر کی دنیا کے ساتھ مصالحت میں کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے۔ اسے یہ بات تسلیم کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ اسے دنیا کی بات ماننے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ وہ کسی نہ کسی سطح پر نیوکلیئر ہتھیار بنانے کی صلاحیت ضرور حاصل کرنا چاہتا ہے‘‘۔
انٹیلی جنس کے اعلیٰ امریکی عہدے دار کہتے ہیں کہ ایران اپنے لیے نیوکلیئر ہتھیار تیار کرنے کا راستہ کھلا رکھنا چاہتا ہے لیکن اس نے اب تک بم تیار کرنے کا فیصلہ نہیں کیا ہے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اگر ایران نے ایسا فیصلہ کیا تو وہ اس سال کے آخر تک نیوکلیئر ہتھیار تیار کو سکے گا۔
بعض تجزیہ کاروں نے اس تشویش کا اظہار کیا ہے کہ وہ ان مذاکرات کی آڑ میں اپنی نیوکلیئر اسلحہ تیار کرنے کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کے لیے وقت حاصل کر رہا ہے ۔وزیرِ خارجہ کلنٹن نے اس قسم کی حکمت عملی کے خلاف انتباہ کیا ہے۔
’’میرے خیال میں ایرانیوں کو یہ بات بھی معلوم ہونی چاہیئے کہ یہ کوئی ایسی بات چیت نہیں ہے جس میں وقت کی کوئی قید نہ ہو۔ ان مذاکرات میں سنجیدگی سے کوئی اقدامات کرنے پر بات چیت ہونی چاہیئے۔ دونوں فریقین کو پائیدار بنیاد پر کسی فیصلے پر پہنچنا چاہیئے جسے ایسی پالیسی کی شکل دی جا سکے جس کی جلد از جلد تصدیق ہو سکے‘‘۔
اسرائیل اور امریکہ نے ایران کو نیوکلیئر بم کی تیاری سے باز رکھنے کے لیے فوجی کارروائی کے امکان کو مسترد نہیں کیا ہے۔ واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ کے مائیکل سنگھ کہتے ہیں کہ ’’اگر مذاکرات ناکام ہو جاتے ہیں، تو ہو سکتا ہے کہ اسرائیل فوجی کارروائی کرے۔ میرے خِیال میں امریکہ، یورپی یونین اور دوسرے ملکوں کی طرف سے بھی دباؤ میں اضافہ ہوگا‘‘۔
سنگھ کہتے ہیں کہ اگر مذاکرات کامیاب نہیں ہوتے، تو امریکی کانگریس اور یورپی ملک مزید پابندیوں کے بارے میں غور کر رہے ہیں۔