اسرائیل ایران کی نیوکلیئر تنصیبات پر فوجی حملوں کے لیے دباؤ ڈالتا رہا ہے ۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کام میں امریکہ اس کی مدد کرے یا کم از کم اس کی منظوری دے دے۔ لیکن صدر براک اوباما نے جو حال ہی میں واشنگٹن میں اسرائیلی وزیرِ اعظم بنجامن نیتن یاہو سے ملے، صبر سے کام لینے کا مشورہ دیا ہے ۔ انھوں نے اسرائیلیوں پر زور دیا ہے کہ وہ ایران پر عائد کی ہوئی اقتصادی اور سیاسی پابندیوں کو کام کرنے کا لیے وقت دیں۔
نیو امریکہ فاؤنڈیشن سے وابستہ ، سابق اسرائیلی عہدے دار ڈینیئل لیوے کہتے ہیں کہ مسٹر نیتن یاہو نے جو موقف اختیار کیا ہے اس کے سیاسی پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ وہ کہتے ہیں’’میں یہ کہنا تو نہیں چاہتا کہ وہ یہ سب سیاسی مصلحت کے تحت کر رہے ہیں، لیکن بہر حال وہ ہیں تو سیاستداں۔ میں نے جو چیز نوٹ کی ہے وہ یہ ہے کہ یہاں سارا تجزیہ اس طرح ہو رہا ہے جیسے اسرائیل میں سیاست ہے ہی نہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ اس پورے معاملے کے سیاسی پہلو کو اجاگر کروں۔ اپنے عہدے کی تیسرے مدت کے لیے وزیرِ اعظم نیتن یاہو کی پوزیشن خاصی مضبوط نظر آ رہی ہے، اور ان کے لیے یہ بات بہت اہم ہے۔‘‘
اسرائیلی پارلیمینٹ، Knesset کے لیے انتخابات اکتوبر 2013 سے پہلے ہونا ضروری ہیں اور بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ وزیرِ اعظم نیتن یاہو قبل از وقت انتخابات کرائیں گے ۔ رائے عامہ کے ایک حالیہ جائزے کے مطابق، 42 فیصد اسرائیلی ایران پر نیوکلیئر ہتھیاروں کی تیاری سے پہلے ہی حملہ کرنے کے حق میں ہیں، اگر امریکہ اس کی حمایت کرے۔
حال ہی میں واشنگٹن میں اسرائیل کی حامی لابی کے سب سے بڑے گروپ امریکن۔اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی کے سامنے تقریر کرتے ہوئے، وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیل ایران کے خلاف سخت کارروائی کرنے میں مزید تاخیر کا خطرہ مول نہیں لے سکتا ۔
ڈینیئل لیوے کہتے ہیں کہ نیتن یاہو کا کھیل یہ ہے کہ تمامتر توجہ ایران پر رکھی جائے اور اسرائیلی فلسطینی مسئلے کی بات نہ کی جائے۔
’’بنجامن نیتن یاہو چاہتے ہیں کہ وہ اپنے دائیں بازو کے اتحاد کے پاس جا سکیں، اور کہیں کہ آپ نے دیکھا؟ میں صرف ایران، ایران، اور ایران ہی کی بات کر رہا ہوں۔ فلسطین تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے ۔ مجھ سے بہتر وزیرِ اعظم اور کون ہو گا؟ اور دائیں بازو کے اتحاد کے لوگ یہی بات سننا چاہتے ہیں۔‘‘
امریکہ میں، کئی ریپبلیکن امیدواروں کے درمیان نامزدگی کے لیے مقابلہ ہو رہا ہے اور ان میں سے ہر ایک نے ایران کے بارے میں سخت موقف اختیار کیا ہے ۔ مٹ رومنی جنہیں دوسرے امیدواروں پر برتری حاصل ہے، کہتے ہیں ’’صدر کو چاہیئے تھا کہ وہ فوجی کارروائی کی ایسی دھمکی دیتے جس پر اعتبار کیا جاتا۔ انہیں صاف طور سے کہہ دینا چاہیئے تھا کہ اگر ضروری ہوا، تو امریکہ ایران کو نیوکلیئر اسلحہ حاصل کرنے سے باز رکھنے کے لیے فوجی کارروائی کرے گا۔‘‘
غیر سرکاری تنظیم نیشنل سیکورٹی نیٹ ورک کی تجزیہ کار ہیتھر ہرلبرٹ کہتی ہیں کہ ریپبلیکنز یہ خیال پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ صدر نے ایران کے ساتھ نرم رویہ اختیار کیا ہے ۔’’اگر براک اوباما ایسے صدر ہیں جنھوں نے قومی سلامتی پر سب سے زیادہ توجہ دی ہے، جیسا کہ وہ اشاروں کنایوں سے یاد دہانی کراتے رہتے ہیں، کہ انھوں نے اسامہ بن لادن کو ہلاک کیا، تو ان پر تنقید کی جانی چاہیئے ۔ اس کے لیے بہترین ہدف ایران ہے کیوں کہ آپ دہشت گردی کے مسئلے پر ان پر تنقید نہیں کر سکتے، اور عراق اور افغانستان کے حوالے سے ان پر تنقید نہیں کر سکتے کیوں کہ امریکی اب ان جنگوں سے تنگ آ چکے ہیں اور چاہتے ہیں کہ فوجی گھر واپس آ جائیں۔‘‘
ایران میں حال ہی میں پارلیمانی انتخابات ہوئے ہیں۔ رینڈ کارپوریشن میں پالیسی کے سینیئر تجزیہ کار علی رضا نادر کہتے ہیں کہ ایران کی کٹر مذہبی حکومت میں بھی سیاسی عوامل اہم ہیں۔’’سیاست ایران میں بھی اہم ہے ۔ میرے خیال میں ایک عام غلط فہمی یہ ہے کہ ایران ایسا ملک ہے جہاں متحدہ سیاسی نظام قائم ہے اور جو نیوکلیئر اسلحہ بنانے کی صلاحیت حاصل کرنے کی راہ پر گامزن ہے ۔ یہ بات صحیح نہیں ہے ۔ ایران کی خارجہ پالیسی اور اس کی نیوکلیئر پالیسی پر ایران کی سیاست کا گہرا اثر پڑتا ہے ۔ ‘‘
انتخابات میں رہبرِ اعلیٰ ، آیت اللہ علی خامنہ ای کے حامیوں کو پلڑا بھاری رہا ، اور صدر محمود احمدی نژاد کے حامیوں کی کارکردگی خراب رہی ۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ان کا اثر و رسوخ بہت کم ہو گیا ہے ۔ نیشنل ایرانیئن امریکن کونسل کی صدر اور ایران کے ساتھ صدر اوباما کی سفارتکاری کے بارے میں ایک نئی کتاب کی مصنفہ، ٹریٹا پارسی کہتی ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ رہبرِ اعلیٰ اپنے مشیروں میں بعض اعتدال پسند آوازوں کو شامل کر لیں۔
وہ کہتی ہیں کہ اس وقت امریکہ اور ایران دونوں کو اپنے رویے میں لچک پیدا کرنی چاہیئے تا کہ وہ اس دلدل میں گرنے سے بچ سکیں جو ان کے بہت قریب آ گئی ہے ۔
ایسے آثار نظر آئے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس دلدل میں گرنے سے بچنے کے لیے کچھ اقدامات کیے گئے ہیں ۔ ایران نے حال ہی میں، P5+1 کے ملکوں کے ساتھ مذاکرات دوبارہ شروع کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ اسرائیل کی طرف سے جنگ کی باتوں میں کچھ کمی آئی ہے، اگرچہ وزیرِ اعظم نیتن یاہو کو ایرانی حکومت کے خلاف پابندیوں کے مؤثر ہونے کے بارے میں اب بھی شبہ ہے ۔