ترکی کے وزیر توانائی تانر یلدز اور قومی گیس کمپنی بوٹاس نے کہا ہے کہ ایران اور ترکی کے درمیان قدرتی گیس پائپ لائن پر ترکی کے مشرقی صوبے اگری میں تخریب کاروں کی طرف سے پیر کی شام حملہ کیا گیا جس کے بعد گیس کی ترسیل منقطع ہو گئی ہے۔
اس حملے کی ذمہ داری فوری طور پر کسی نے قبول نہیں کی مگر یہ حملہ شمالی عراق میں قائم کردستان ورکرز پارٹی کی جانب سے کیے گئے دیگر حملوں سے مماثلت رکھتا ہے۔ اس تنظیم کے ٹھکانوں پر گزشتہ ہفتے ترکی کی فضائیہ نے حملے کیے ہیں۔
یلدز نے ایک بیان میں کہا کہ ’’ترکی کی سرحد کے تقریباً 15 کلومیٹر اندر ترکی ایران گیس پائپ لائن پر تخریبی کارروائی کے نتیجے میں ایک دھماکہ ہوا۔‘‘
انہوں نے کہا کہ دھماکے کے نتیجے میں لگنے والی آگ پر فوراً قابو پا لیا گیا۔
ایران سے سالانہ 10 ارب کیوبک میٹر گیس ترکی لے جانے والی یہ پائپ لائن 1990s کی دہائی سے 2013 میں ہونے والی جنگ بندی تک کرد باغیوں کے حملوں کا نشانہ بنتی رہی ہے۔
بوٹاس کے ایک عہدیدار نے کہا کہ پائپ لائن کی مرمت کا کام جاری ہے مگر یہ واضح نہیں کہ گیس کی فراہمی کب بحال ہو گی۔
ترکی سالانہ 40 ارب کیوبک میٹر گیس پائپ لائنوں کے ذریعے درآمد کرتا ہے۔ ایران کے علاوہ وہ روس سے بھی گیس درآمد کرتا ہے جو ملک میں بجلی کی تقریباً نصف پیداوار کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔
کردوں کے حقوق کے لیے برسرپیکار کردستان ورکرز پارٹی کے ساتھ جنگ میں عارضی تعطل وزیر اعظم رجب طیب اردوان کی طرف سے شروع کیے گئے امن کے عمل کا حصہ تھا جس کا مقصد تین دہائیوں سے جاری بغاوت کا خاتمہ تھا جس میں 40,000 سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔
مگر ترکی نے گزشتہ ہفتے شمالی عراق میں کردستان ورکرز پارٹی کے ٹھکانوں اور شام میں داعش کے خلاف بیک وقت فضائی حملے شروع کر دیے۔
کرد تنظیم نے کہا ہے کہ ترکی کے حملوں کے بعد جنگ بندی بے معنی ہو گئی ہے، مگر اس نے اس کے خاتمے کا اعلان نہیں کیا۔
کرد اکثریت والے جنوب مشرقی علاقے میں جہاں سے کئی پائپ لائنیں گزرتی ہیں، گزشتہ ہفتے سے پولیس پر ہونے والے حملوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔