ایران کا کہنا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ سن 2015 میں دنیا کی بڑی طاقتوں کے ساتھ کیے گئے جوہری معاہدے کی بحالی ممکن ہے تاہم ایران نے خبردار کیا ہے کہ تہران ہمیشہ کے لیے مذاکرات نہیں کرے گا۔
ایران کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادے کا جوہری معاہدے سے متعلق دوبارہ شروع ہونے والے مذاکرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہفتے کو کی جانے والی ٹوئٹ میں کہنا تھا کہ اس معاہدے کو بچانے کے لیے ایران آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں ہونے والے مذاکرات میں سب سے زیادہ متحرک رکن تھا۔ جس کی طرف سے سب سے زیادہ تجاویز دی گئیں۔
دوسری طرف برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کی جمعے کو جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق ایک سینئر امریکی عہدیدار کا کہنا تھا کہ اگر ایران کے ساتھ 2015 کے جوہری معاہدے کی بحالی پر اختلافات ختم نہیں ہوتے تو واشنگٹن کو مستقبل قریب کے لیے اپنی حکمت عملی پر دوبارہ سے سوچنا ہوگا۔
سیئنر عہدیدار کا اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا کہ امریکہ اور ایران کے درمیان ابھی بھی مختلف نکات پر اختلافات ہیں، چاہے وہ ایران کی طرف سے معاہدے میں واپسی کے لیے جوہری اقدامات سے متعلق ہوں یا امریکہ کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کو ہٹانے سے متعلق۔
عہدیدار کا مزید کہنا تھا کہ یہ عمل ہمیشہ کے لیے کھلا نہیں رہے گا۔
خیال رہے کہ امریکہ اور ایران 2015 کے معاہدے کی بحالی کے لیے بالواسطہ مذاکرات کر رہے ہیں۔ تاکہ تہران پر جوہری سرگرمیوں پر پابندی کے بدلے چھ عالمی طاقتوں کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کو ہٹایا جا سکے۔
خطیب زادے کا ٹوئٹ میں مزید کہنا تھا کہ وہ اب بھی سمجھتے ہیں کہ معاہدے پر عمل درآمد ممکن ہے بشرطیکہ امریکہ ٹرمپ کی ناکام پالیسیوں کو ترک کر دے۔
معاہدے میں شریک ممالک کے عہدیداروں کے مطابق معاہدے کی بحالی سے پہلے بہت سارے معاملات کو حل کرنا ہے۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کی طرف سے بھی ایران سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ فوری طور پر بتائے کہ آیا وہ جوہری تنصیبات کی نگرانی کے معاہدے میں توسیع کرے گا یا نہیں۔
اس کے جواب میں ایرانی سفارت کار کا کہنا تھا کہ تہران پابند نہیں ہے کہ وہ جواب دے۔
خیال رہے کہ آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں رواں برس اپریل میں شروع ہونے والے مذاکرات میں فی الوقت توقف ہے جو کہ جولائی تک ختم ہو سکتے ہیں۔
تاہم ایران کی طرف سے جوہری تنصیبات کی نگرانی کی اجازت نہ دیے جانے کے سبب ان مذاکرات کا نتیجہ کھٹائی میں پڑ گیا ہے۔
امریکہ دنیا کی دیگر پانچ عالمی قوتوں کے ساتھ 2015 میں ہونے والے معاہدے میں از سرِ نو شمولیت کے لیے بات چیت کر رہا ہے۔
یہ معاہدہ سابق صدر اوباما کے دور میں ہوا تھا لیکن ان کے بعد صدر ٹرمپ نے اقتدار میں آکر اس معاہدے کو ایران کا جوہری پرگرام روکنے کے لیے ناکافی قرار دیتے ہوئے اس سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔
اس فیصلے کے بعد صدر ٹرمپ کی انتظامیہ نے ایران پر دوبارہ وہ پابندیاں عائد کر دی تھیں جو اس معاہدے کے نتیجے میں ختم کی گئی تھیں۔
صدر اوباما کے دورِ حکومت میں جب ایران کے ساتھ یہ معاہدہ ہوا تو موجودہ صدر بائیڈن اس وقت نائب صدر تھے۔
صدر بائیڈن اپنے پیش رو سابق صدر ٹرمپ کی معاہدے سے علیحدگی کے بعد دوبارہ ایران کے ساتھ اس معاہدے کا حصہ بننے کے لیے مشروط آمادگی ظاہر کر چکے ہیں۔