واشنگٹن —
ایران کے صدر محمود احمدی نژاد تاریخی دورے پر منگل کو مصر پہنچے ہیں جہاں مصر کے صدر محمد مرسی نے قاہرہ کے ہوائی اڈے پر ان کا پرتپاک استقبال کیا ہے۔
سنہ 1979 کے انقلابِ ایران کے بعد احمدی نژاد مصر کا دورہ کرنے والے پہلے ایرانی سربراہِ مملکت ہیں۔
اس دورے کے دوران میں وہ اعلیٰ مصری حکام سے ملاقاتوں کے علاوہ اسلامی ممالک کے تنظیم 'او آئی سی' کے ایک اجلاس میں بھی شرکت کریں گے جو بدھ سے قاہرہ میں شروع ہورہا ہے۔
ایران کے صدر قاہرہ کی ہزار سالہ قدیم اسلامی درس گاہ 'الازہر' کا بھی دورہ کریں گے جہاں ان کی شیخ الازہر سے ملاقات طے ہے۔
جامعہ الازہر کا شمار سنی فرقے کی سب سے معتبر دینی درس گاہ میں ہوتا ہے اور شیعہ اکثریتی ایران کے سربراہ کی جانب سے اس درسگاہ کے دورے کو مشرقِ وسطیٰ میں جاری شیعہ سنی کشیدگی میں کمی کےلیے ایک اہم قدم سمجھا جارہا ہے۔
ایران میں1979ء کے اسلامی انقلاب اور اسی سال مصر کے اسرائیل کےساتھ امن معاہدے کے بعد قاہرہ اور تہران کے تعلقات میں کشیدگی در آئی تھی جس میں گزشتہ برس اسلام پسند صدر مرسی کے اقتدار میں آنے کے بعد کمی آئی ہے۔
اپنی قاہرہ آمد سے قبل لبنان کے ایک ٹیلی ویژن چینل کو دیے جانے والے انٹرویو میں صدر احمدی نژاد نے کہا کہ ایران اور مصر کی جانب سے مسئلہ فلسطین پر مشترکہ موقف اپنانے کی صورت میں خطے کا سیاسی جغرافیہ تبدیل ہوسکتا ہے۔
'قناۃ المیادین' نامی چینل کو انٹرویو میں ایرانی صدر نے مصر سے ملحق فلسطینی علاقے غزہ کے دورے کی خواہش کا بھی اظہار کیا جہاں ایران کی حمایت یافتہ اسلام پسند تنظیم 'حماس' کی حکمرانی ہے۔
ایرانی صدر کا کہنا تھا کہ اگر مصری حکام نے انہیں اجازت دی تو وہ غزہ جانا اور وہاں کے لوگوں سے ملنا چاہیں گے۔
سنہ 1979 کے انقلابِ ایران کے بعد احمدی نژاد مصر کا دورہ کرنے والے پہلے ایرانی سربراہِ مملکت ہیں۔
اس دورے کے دوران میں وہ اعلیٰ مصری حکام سے ملاقاتوں کے علاوہ اسلامی ممالک کے تنظیم 'او آئی سی' کے ایک اجلاس میں بھی شرکت کریں گے جو بدھ سے قاہرہ میں شروع ہورہا ہے۔
ایران کے صدر قاہرہ کی ہزار سالہ قدیم اسلامی درس گاہ 'الازہر' کا بھی دورہ کریں گے جہاں ان کی شیخ الازہر سے ملاقات طے ہے۔
جامعہ الازہر کا شمار سنی فرقے کی سب سے معتبر دینی درس گاہ میں ہوتا ہے اور شیعہ اکثریتی ایران کے سربراہ کی جانب سے اس درسگاہ کے دورے کو مشرقِ وسطیٰ میں جاری شیعہ سنی کشیدگی میں کمی کےلیے ایک اہم قدم سمجھا جارہا ہے۔
ایران میں1979ء کے اسلامی انقلاب اور اسی سال مصر کے اسرائیل کےساتھ امن معاہدے کے بعد قاہرہ اور تہران کے تعلقات میں کشیدگی در آئی تھی جس میں گزشتہ برس اسلام پسند صدر مرسی کے اقتدار میں آنے کے بعد کمی آئی ہے۔
اپنی قاہرہ آمد سے قبل لبنان کے ایک ٹیلی ویژن چینل کو دیے جانے والے انٹرویو میں صدر احمدی نژاد نے کہا کہ ایران اور مصر کی جانب سے مسئلہ فلسطین پر مشترکہ موقف اپنانے کی صورت میں خطے کا سیاسی جغرافیہ تبدیل ہوسکتا ہے۔
'قناۃ المیادین' نامی چینل کو انٹرویو میں ایرانی صدر نے مصر سے ملحق فلسطینی علاقے غزہ کے دورے کی خواہش کا بھی اظہار کیا جہاں ایران کی حمایت یافتہ اسلام پسند تنظیم 'حماس' کی حکمرانی ہے۔
ایرانی صدر کا کہنا تھا کہ اگر مصری حکام نے انہیں اجازت دی تو وہ غزہ جانا اور وہاں کے لوگوں سے ملنا چاہیں گے۔