احتجاج کرنے والی ایک ایرانی خاتون ارمیتا عباسی کو جیل سے رہا کر دیا گیا ہے۔ اسے ان مظاہروں کے دوران گرفتار کیا تھا جو ایک کرد خاتون ،مہسا امینی کی مبینہ طور پر پولیس کی حراست میں ہلاکت کے خلاف ملک بھر میں شروع ہوئے تھے۔ارمیتا پر الزام تھا کہ وہ ان مظاہروں کی قیادت کر رہی تھی ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق حراست کے دوران اس پر تشددکیا گیا اور اس کی آبرو ریزی کی گئی۔
20 سالہ ارمیتا عباسی کے والد نے سوشل میڈیا پوسٹ پر ایک ویڈیو پوسٹ کی جس میں ان کی بیٹی ساتھ بیٹھی ہوئی ہے ۔انہوں نے لکھا کہ ہم نے بہت مشکل وقت دیکھا ہے ، لیکن اب میں بہت خوش ہوں۔
ارمیتا عباسی کی وکیل، شہلا اوروجی نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ ایک عدالت نے ان کی مؤکل پر اسلامی جمہوریہ کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے اور قومی سلامتی کے خلاف اجتماع اور سازش کرنےکا الزام لگایا ہے۔
عباسی کو مہسا امینی کی پولیس کی حراست میں ہلاکت کے بعد شروع ہونے والے ملک گیر احتجاج کے تقریباً ایک ماہ بعد، 10 اکتوبر کو ایرانی دارالحکومت کے مغرب میں ان کے آبائی شہر کرج سے گرفتار کیا گیا تھا
ایرانی حکومت نے دعویٰ کیا کہ وہ ان ہنگاموں کی قیادت کر رہی تھی اور پولیس نے اس کے اپارٹمنٹ سے مولوٹوف کاک ٹیل کی دس بوتلیں بھی قبضے میں لیں۔
نومبر میں، امریکی کیبل نیوز نیٹ ورک سی این این نے حالیہ احتجاجی مظاہروں سے تعلق رکھنے والےزیر حراست قیدیوں پر جنسی زیادتی اور آبرو ریزی کے بارے میں ایک تحقیقاتی رپورٹ شائع کی تھی جن میں ارمیتا عباسی کا نام بھی شامل تھا۔
ایک ذریعے نے سی این این کو بتایا کہ عباسی کو 17 اکتوبر کو کرج کے امام علی اسپتال لے جایا گیا۔ اس کے ساتھ سادہ لباس والے پولیس افسران بھی تھے جب کہ اس کا سر منڈا ہوا تھا اور وہ خوف سے کانپ رہی تھی۔
سی این این نے مزید کہا، اس کا علاج کرنے والے طبی عملے کا کہنا تھا کہ جب انہوں نےارمیتا کے ساتھ کی جانے والی وحشیانہ درندگی کے ثبوت دیکھےتو انہوں نے بے انتہا خوف محسوس کیا۔
نہ ہی عباسی نہ ہی ان کے خاندان اور وکیل نے اس رپورٹ پر باقاعدہ کوئی تبصرہ کیاہے۔
جنوری کے شروع میں، عباسی اور تہران کے قریب کچوئی جیل میں قید 14 دیگر ایرانی خواتین نے مبینہ طور پر اپنی قید کے حالات اور اس جیل میں، طبی امداد کی کمی کے خلاف بھوک ہڑتال کی تھی۔
اس وقت، اس کی والدہ نے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر لکھا تھا کہ، ان کی بیٹی کی بھوک ہڑتال کی وجہ سے، جیل حکام اب اسے اپنے اہل خانہ کو فون کرنے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔
مہساامینی کی موت کے بعد سے، ایرانیوں کا ایک سیلاب سڑکوں پر امڈ آیا ہے اور وہ حقوق کی عدم فراہمی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں ۔پہلی مرتبہ ملک بھر کی خواتین اور اسکول کی طالبات بھی ان مظاہروں میں شریک ہیں جو 1979 کے انقلاب کے بعد سے اسلامی حکومت کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن گیا ہے
امریکہ میں قائم انسانی حقوق کے کارکنان کی نیوز ایجنسی نےرپورٹ دی کہ اس بدامنی کے دوران 29 جنوری تک، کم از کم 527 افراد ہلاک ہوچکے ہیں، جن میں 71 بچے بھی شامل ہیں، لیکن سیکیورٹی فورسز اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہیں۔
آر ایف ای/آر ایل کے ریڈیو فردا کی فارسی میں اصل رپورٹ پر مبنی ،اردشیر طیبی کی تحریر