پاکستان کے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے مذاکرات آخری مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں اور وزیرِخزانہ اسحاق ڈار نے امید ظاہر کی ہے کہ آئی ایم ایف سے بات چیت پر انہیں اچھی خبر سننے کو ملے گی۔
تجزیہ کارں کا خیال ہے کہ حکومت آئی ایم ایف کو قرض کی نئی قسط جاری کرنے پر تقریباً قائل کرچکی ہے۔اس کے لیے معاہدے کے تحت پہلے طے پانے والے نکات پر عملدرآمد کا وعدہ بھی کرلیا گیا ہے۔
اسلام آباد میں جمعرات کو صحافیوں سے مختصر گفتگو کرتے ہوئے وزیرِخزانہ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف سے بات چیت درست سمت میں آگے چل رہی ہے اور وہ مذاکرات سے متعلق اچھی خبر دیں گے۔ ان کے بقول حکومت کا آئی ایم ایف سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔
وائس آف امریکہ نے جن معاشی ماہرین اور تجزیہ کاروں سے گفتگو کی ان کا بھی خیال ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے قریب پہنچ چکا ہے اور معاہدے کے تحت پہلے طے پانے والے نکات پر عملدرآمد کا وعدہ بھی کرلیا گیا ہے۔ یعنی حکومت کو گردشی قرضے کے خاتمے کے لیےبجلی کی فی یونٹ قیمت میں اضافہ، بجٹ میں پرائمری سرپلس حاصل کرنے کے لیے محاصل مزید بڑھانے کی خاطر نئے ٹیکسز کا نفاذ، صوبوں کو سرپلس بجٹ پورا کرنے، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں پی ڈی ایل عائد کرنے اور شفافیت برقرار رکھنے کے لیے گریڈ 17 سے اوپر تمام سرکاری افسران کےاثاثے ظاہر کرنے جیسے اقدامات کرنے ہوں گے۔
آئی ایم ایف مشن کے دورے کے آخری روز مذاکرات کامیاب ہونے کی صورت میں فریقین کے درمیان اسٹاف لیول ایگریمنٹ(ایس ایل اے) پر دستخط ہونے کا امکان ہے جس کا اعلان جمعرات یا جمعے کو کسی بھی وقت ہو سکتا ہے۔
دوسری جانب ڈالر کی شدید کمی کے شکار پاکستان کو معیشت کو مختلف سامان درآمد کرنے میں مسلسل رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ ملک میں کام کرنے والی آٹو کمپنی 'پاک سوزوکی' نے بیرونِ ملک سے درآمد کیے جانے والے خام مال کی انوینٹری کی سطح میں مسلسل کمی کے باعث اپنا یونٹ پانچ روز تک بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔
واضح رہے کہ یہ دو ماہ میں دوسری دفعہ ہے جب یہ یونٹ بند کیا جا رہا ہے۔
ملک کے مرکزی بینک اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے درآمدات کے لیے لیٹر آف کریڈٹ (ایل سی) بروقت نہ کھولنے سے آٹو انڈسٹری کی پیداوار گزشتہ چند ماہ سے کافی متاثر ہوئی ہے۔
ایک جانب کار سازی کی صنعت میں بڑا تعطل دیکھا جا رہا ہے تو وہیں روپے کی قدر میں 30 فی صد سے زائد گراوٹ سے مقامی مارکیٹ میں قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔
آٹو انڈسٹری سے تعلق رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ جب تک حکام کی جانب سے ایل سی کھولنے کے لیے لگائی گئی زبانی پابندیاں نہیں ہٹائی جاتیں اس وقت تک یہ صورتِ حال برقرار رہے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے آٹو انڈسٹری میں کارآمد صرف 50 فی صد پرزوں کی درآمد کی اجازت دے رکھی ہے۔
ادھر ملک میں تعمیراتی صنعت سے وابستہ افراد کی ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈویلپرز (آباد) نے اعلان کیا ہے کہ وہ اگلے ہفتے سے تعمیراتی مقاصد کے لیے سریا خریدنے سے قاصر ہے۔
آباد کےچیئرمین الطاف تائی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ایل سیز نہ کھلنے کی وجہ سے خام مال میں کمی کے باعث مینوفیکچرر نے سریے کی قیمتیں تین لاکھ روپے فی میٹرک ٹن سے بھی بڑھادی ہیں اور صرف ایک ماہ میں اس میں ایک لاکھ روپے سے زائد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
ان کے بقول اس کے برعکس بین الاقوامی مارکیٹ میں اسکریپ لوہے کی قیمت 480 ڈالر سے کم ہوکر 450 ڈالر فی میٹرک ٹن ہوچکی ہے۔ تمام دیگر قیمتیں ملا کر بھی پاکستان میں ڈالر کی قیمت کے حساب سے بھی اس کی قیمت دو لاکھ 24 ہزار روپے کے اردگرد بنتی ہے۔تاہم مینوفیکچررز نے قیمت تین لاکھ دو ہزار روپے کر رکھی ہے اور گھنٹوں کے حساب سے اس قیمت میں اضافہ کیا جا رہا ہے جو 'بلیک میلنگ' کے مترادف ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایل سیز نہ کھلنے سے صنعتیں 50 فی صد استعداد پر کام کررہی ہیں اور اگر اس کی بھی لاگت لگادی جائے تو بھی قیمتوں میں اس قدر اضافہ نہ سمجھ میں آنے والا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اسی طرح ملک میں سیمنٹ کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ایسے میں ان کے لیے تعمیراتی کام جاری رکھنا ممکن نہیں رہا۔
موجودہ صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے معاشی تجزیہ کار شہریار بٹ کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ کامیاب معاہدہ پاکستان کے اکاؤنٹ میں ڈالر کی آمد کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔اگر ایسا ہوتا ہے تو ایل سیز کھولنے سے اس طرح کے مسائل حل ہونے کی کسی حد تک امید پیدا ہو جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں قیمتوں پر کنٹرول رکھنے اور ان پر نظر رکھنے میں مکمل طور پر ناکام نظر آتی ہیں۔ لیکن انہوں نے بتایا کہ صرف آئی ایم ایف سے معائدہ ہوجانا کافی نہیں ہوگا بلکہ خزانے کی جانب امریکی ڈالر کا بہاؤبڑھانے کے لیےدیگر دوست ممالک سے مذاکرات کرنا ہوں گے۔
ان کے بقول ایکسچینج مارکیٹ کو آزادانہ کام کرنے کی اجازت دینا ہوگی تاکہ ملک میں ترسیلات زر اور برآمدات کی مد میں آںے والا غیر ملکی زرمبادلہ بڑھ سکے۔ اسی صورت میں ہی حکومت ملک میں انتہائی ضروری صنعتوں کے علاوہ دیگر صنعتوں کو بھی خام مال درآمد کرنے کی اجازت دے سکتی ہے۔