رسائی کے لنکس

ایران: کرونا کے باعث ٹیکنالوجی کے شعبے سے منسلک خواتین مشکلات کا شکار


کووڈ-19 کے باعث ٹیکنالوجی کے شعبے سے وابستہ بہت سی خواتین گھروں سے کام کر رہی ہیں۔
کووڈ-19 کے باعث ٹیکنالوجی کے شعبے سے وابستہ بہت سی خواتین گھروں سے کام کر رہی ہیں۔

ایران میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ نے جہاں ملکی معیشت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ وہیں ٹیکنالوجی کے شعبے میں تگ و دو کے بعد نوکری حاصل کرنے والی ایرانی خواتین کو اپنی ملازمتیں بچانے کا چیلنج بھی درپیش ہے۔

کرونا وائرس کے باعث ٹیکنالوجی کے شعبے سے وابستہ بہت سی خواتین گھروں سے کام کر رہی ہیں۔ انہی میں فرشتے قصری بھی شامل ہیں، جن کے بقول گھر سے کام کرنے کے فوائد بھی ہیں اور نقصانات بھی۔

فرشتے ایران کی آن لائن بکنگ کی سب سے بڑی سروس 'علی بابا' کے 'ہیومن ریسورس' شعبے کی سربراہ ہیں۔

کرونا وائرس کے باعث ٹریولنگ کا شعبہ بھی سب سے متاثرہ ہونے والے کاروبار میں شامل ہے۔ فرشتے اور ان کے ساتھیوں کو بھی اپنی ملازمتوں کے تحفظ کے حوالے سے کئی خدشات ہیں۔

فرشتے اور اُن کی کمپنی میں کام کرنے والے دیگر ملازمین کو اس نئی صورتِ حال سے ہم آہنگ کرنے کے لیے بہت کم وقت ملا تھا۔ اب یہ لوگ گھروں سے میٹنگز کرتے ہیں۔ دفتری اُمور سے متعلق معاملات بھی ویڈیو چیٹ کے ذریعے سرانجام دیے جاتے ہیں۔

ایران جیسے قدامت پسند معاشرے میں فرشتے کی کمپنی میں خواتین ملازمین کی شرح 42 فی صد ہے۔

ایران کی 'سلیکون ویلی' اور 'اسٹارٹ اپس'

ایرانی دارالحکومت تہران کے نواح میں واقع 'سلیکیون ویلی' میں کئی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے دفاتر ہیں۔ علی بابا کا دفتر بھی یہی ہے۔ جہاں 700 ک لگ بھگ ملازمین کام کرتے ہیں۔

اس سلیکون ویلی میں متعدد ٹیکنالوجی کمپنیوں کے دفاتر موجود ہیں۔ جہاں بہت سے خواتین بھی کام کرتی ہیں۔

علی بابا میں کام کرنے والی 'لیگل منیجر' انیس عامر ارجمندی کا کہنا تھا کہ وہ اس سے قبل تین بڑی کمپنیوں میں ملازمت کر چکی تھیں۔ اُن کے بقول ملازمتوں کے حصول کے لیے اقربا پروری بھی ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹیکنالوجی کمپنیوں اور 'اسٹارٹ اپ' (نئے آئیڈیاز کے ساتھ کاروبار شروع کرنے والی کمپنیاں) میں خواتین کو کام کرنے کے زیادہ مواقع میسر آتے ہیں۔ جہاں اُنہیں مخلوط ماحول میں کام کرنے کی کھلی آزادی ہے۔

ایران کا شمار مشرقِ وسطیٰ کے اُن ملکوں میں ہوتا ہے جہاں 87 فی صد شہریوں کی انٹرنیٹ تک رسائی ہے۔

ایران میں 'اسٹارٹ اپ' کا آغاز سن 2000 کے بعد ہوا جب کہ 2013 کے بعد اس شعبے میں مزید ترقی ہوئی۔

البتہ، امریکہ کی جانب سے عائد کی گئی اقتصادی پابندیوں نے ایران میں ٹیکنالوجی کے شعبے کو بھی نقصان پہنچایا۔

لیکن امریکہ کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کے باوجود ایران کے نوجوانوں نے 'اسٹارٹ اپس' کو مزید فروغ دے کر کاروبار کے نئے مواقع پیدا کیے۔

جن میں امریکی کی آن لائن کاروبار سے متعلق کمپنی 'ایمیزون' کی طرز پر 'دیجی کالا' کے علاوہ آن لائن ٹیکسی سروس اوبر کی طرز پر 'ٹیپ-30' اور 'سنیپ' بھی شامل ہیں۔

ان کمپنیوں کو چلانے کے لیے خواتین ملازمین کی بھرتی کو ترجیح دی گئی ہے۔ لگ بھگ 40 فی صد سے زائد کی شرح سے خواتین ملازمین کو بھرتی کیا گیا۔

لیکن کرونا وائرس کے باعث بہت ایران میں بہت سی ایسی کمپنیوں کے دفاتر بند ہیں اور لوگ گھروں سے کام کر رہے ہیں۔

انیس عامر ارجمندی کہتی ہیں کہ کرونا وائرس کے باعث گھر سے کام کرنے والی خواتین کو گھریلو اور دفتری اُمور میں توازن قائم رکھنے کا چیلنج درپیش ہے۔ جس کے باعث بہت سے خواتین ملازمتیں چھوڑ رہی ہیں۔

اُن کے بقول اُن کی کمپنی میں کام کرنے والی ایک خاتون نے محض اس بنیاد پر نوکری چھوڑ دی کہ اُن کے خاوند کھانا بروقت تیار نہ ہونے کی شکایت کی تھی۔

ایران میں کرونا وائرس کے باعث 5200 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ لگ بھگ 83000 سے زائد افراد مہلک وائرس سے متاثر ہوئے۔

XS
SM
MD
LG