مشرق وسطیٰ اس بار ماہِ رمضان کی روایتی رونقوں اور سرگرمیوں سے خالی ہو گا۔ کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے احتیاطی تدابیر کے طور پر نہ تو افطار پارٹیاں ہو سکیں گی اور نا ہی مساجد میں باجماعت نماز۔
مشرق وسطیٰ میں اگلے ہفتے سے اسلامی مہینہ رمضان شروع ہونے والا ہے۔ اس ماہ کو مقدس ترین مہینہ تصور کیا جاتا ہے۔
دنیا بھر میں آباد تمام مسلمان ماہِ رمضان میں طلوعِ فجر سے غروب آفتاب تک تمام دن کچھ نہیں کھاتے پیتے جب کہ شام کو افطار کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
لیکن اس سال تیزی سے پھیلتی کرونا وائرس کی وبا نے سعودی عرب اور لبنان سے لے کر لیبیا اور عراق و یمن کے جنگی علاقوں تک سب جگہ رمضان کی روایت و سرگرمیوں کو محدود سے محدود تر کر دیا ہے۔
سعودی عرب کے مفتی اعظم عبد العزیز الشیخ سمیت متعدد ممالک کے مذہبی حکام نے فیصلہ کیا ہے کہ رمضان اور عید تک کی تمام نمازیں گھروں میں ادا کی جائیں۔
یروشلم کے فلسطینی مفتی محمد حسین نے بھی مسلمانوں کو نماز گھروں پر ادا کرنے کی تاکید کی ہے۔
ترجیح دی جارہی ہے کہ خطے کی تمام مساجد میں تراویح سمیت کوئی اجتماعی عبادت نہ ہو۔ احتیاطی تدابیر کے طور پر خطے کی بعض مساجد کو بند بھی کر دیا گیا ہے۔
مکہ میں واقع دنیا کی سب سے بڑی مسجد کے موذن علی ملا نے 'اے ایف پی' کو بتایا کہ وہ ہر وقت اس مسجد میں لوگوں کا جمِ غفیر دیکھنے کے عادی ہیں مگر اب یہاں کی ویرانی کو دیکھ کر دل میں درد محسوس ہوتا ہے۔
حالیہ ہفتوں میں ایک حیرت انگیز خالی پن نے مقدس کعبہ کو گھیرے میں لے لیا ہے۔ خانہ کعبہ کے ارد گرد ہر وقت ہزاروں افراد کا مجمع عبادت میں مصروف ہوا کرتا تھا مگر اب یہ سارا علاقہ خالی پڑا ہے۔
رمضان کے مقدس مہینے میں دنیا بھر سے یہاں آنے والے افراد عمرے کی سعادت حاصل کیا کرتے تھے لیکن کرونا وائرس کے سبب عمرے کی ادائیگی پچھلے ماہ سے ہی بند ہے۔
ہر سال کی طرح اس بار بھی دنیا بھر کے مسلمان سعودی عرب آ کر حج ادا کرنے کے منتظر ہیں لیکن سعودی حکام نے تاریخ میں پہلی مرتبہ تمام مسلمانوں کو عارضی طور پر حج کی تیاریاں مؤخر کرنے کی تاکید کی ہے۔
سعودی عرب سمیت مشرق وسطیٰ کے دیگر ملکوں میں عالمی ادارۂ صحت کی سفارشات کے مطابق پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ ان پابندیوں سے کاروباری اداروں کو نقصان پہنچا ہے جن میں وہ افراد بھی شامل ہیں جو رمضان میں خریداروں کی تمام ضروریات کو پورا کرتے ہیں۔
دوسری جانب رواں سال بہت سے مسلمانوں نے رمضان شاپنگ بجٹ میں ماسک، دستانوں اور حفاظتی سوٹس کی خریداری کے لیے زیادہ گنجائش رکھی ہے۔
شام کے دارالحکومت دمشق میں کپڑے کی دکان پر کام کرنے والے 51 سالہ یونس نے بتایا کہ انہوں نے رمضان کی خریداری پر خرچ کرنے کے لیے رقم بچالی تھی۔ لیکن اسے وائرس سے تحفظ کے لیے درکار سامان کی خریداری پر خرچ کر دیا ہے۔
اُن کے بقول رواں برس عید بھی سادگی سے گزرے گی کیوں کہ کرونا کی وبا نے پوری دنیا کو گھیرے میں لیا ہوا ہے۔
دوسری جانب مشرق وسطیٰ میں کرونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ملک ایران نے بعض کاروباری سرگرمیوں کو بحال کرنے کی اجازت دی ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ایران میں اب تک 5 ہزاار سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے ہیں جب کہ متاثرین کی تعداد 80 ہزار سے زائد ہو گئی ہے۔
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے ایرانیوں سے اپیل کی ہے کہ وہ رمضان کے دوران گھر میں نماز ادا کریں اور عاجزی کا خیال رکھیں۔
مصر کے دارالحکومت قاہرہ کی تنگ گلیوں اور شہروں میں واقع کچھ بازاروں میں اب بھی روایتی رمضان کی خریداری جاری ہے اور لوگ رمضان میں سجاوٹ کی غرض سے رنگین لالٹین اور دیگر سامان خرید کر گھر لے جارہے ہیں۔
خطے کے بہت سے علما نے اُن خیالات کو یکسر مسترد کر دیا ہے کہ اس وبا کی وجہ سے رواں سال کے روزے رکھنے سے مستثنیٰ ہوں گے۔
علما کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس سے بچنے کے لیے معاشرتی دوری ضروری ہے۔ وائرس نے اُنہیں گھر پر رہتے ہوئے روزے رکھنے سے نہیں روکا۔
عالمی ادارۂ صحت نے اپنی سفارشات میں کہا ہے کہ روزہ رکھنے اور کوویڈ 19 انفیکشن کے خطرے سے متعلق ابھی کوئی مطالعہ نہیں کیا گیا ہے تاہم صحت مند افراد کو سابقہ برسوں کی طرح اس رمضان میں بھی روزہ رکھنے سے کوئی نقصان نہیں ہو گا۔