عراق میں اتوار کے روز تشدد کے واقعات میں تین خودکش کار بم حملے ہوئے جن میں کُرد سکیورٹی فورسز کے کم از کم 50 اہل کار ہلاک ہوئے، جب کہ صوبہٴ انبار میں، جہاں صورتِ حال کشیدہ ہے، سڑک کنارے نصب بم پھٹنے کے نتیجے میں پولیس سربراہ ہلاک ہوا۔
یہ کار بم دھماکے بقوبہ کے شمال میں قرہ تپاہ کے مقام پر عراقی حکومت کی ایک تنصیب کے احاطے میں واقع ہوئے، ایسے میں جب کُرد ملٹری کے سابق فوجی لڑنے کے لیے رضاکارانہ طور پر اپنے نام درج کرا رہے تھے۔
حکام کا کہنا ہے کہ ایک حملہ آور نے احاطے کی راہداری کے اندر بارود سے بھرا مواد دھماکے سے اڑا دیا؛ جب کہ اِسی تنصیب کے اندر کچھ ہی منٹوں بعد دو دیگر حملہ آوروں نے آتشیں مواد سے لدی موٹر گاڑیاں دھماکے سے اڑا دیں۔
اِن حملوں کے نتیجے میں کم از کم 60 افراد ہلاک ہوئے۔
قرہ تپاہ کی میونسپل کونسل کے ایک رکن، صلاح الدین بابن نے ’وائس آف امریکہ‘ کی کُرد سروس کو بتایا کہ یہ شدید نوعیت کے دھماکے تھے، جس کے نتیجے میں 100 میٹر دور کھڑے افراد ہلاک ہوئے۔
اُنھوں نے بتایا کہ دھماکوں کے نتیجے میں تین عمارتیں تباہ ہوئیں، جب کہ اِن کے اندر موجود فراد ہلاک ہوئے۔
کچھ ہی گھنٹے بعد، دولت اسلامیہ کے دہشت گرد گروپ نے اُن کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ تین خودکش بم حملہ آور غیر عراقی جہادی تھے۔
انبار میں، برگیڈیئر جنرل احمد الدلیمی ہلاک ہوئے۔ وہ رمادی کے صوبائی دارلحکومت کے قریب سفر پر تھے۔ یہ وہ علاقہ ہے جسے عراقی سکیورٹی فورسز نے ایک ہی روز قبل بظاہر محفوظ قرار دیا تھا۔
عراقی اہل کاروں کا کہنا ہے کہ بغداد اور شام کی سرحد کے درمیان واقع یہ علاقہ جہاں یہ حملہ ہوا، اُن چند علاقوں میں سے ایک ہے جو داعش کے باغیوں کے قبضے میں نہیں ہے، جنھوں نے عراق اور شام کا وسیع رقبہ ہتھیا لیا ہے۔
پولیس سربراہ طوے کے علاقے کو باغیوں سے چھڑانے کی کوشش میں مصروف تھے۔