عراق کے دارالحکومت بغداد اور اس کے نواحی دیہی علاقے میں ہفتے کو ہونے والے بم دھماکوں اور خود کش حملوں کے نتیجے میں کم از کم 45 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
ہفتے کو سب سے زیادہ ہلاکتیں بغداد کے مغربی ضلعے میں شیعہ اکثریتی محلوں میں ہوئیں جہاں یکے بعد دیگرے تین کار بم دھماکوں میں 34 افراد ہلاک ہوگئے۔
پہلا دھماکہ قدیمیہ کے علاقے میں ہوا جہاں ایک خود کش حملہ آور نے اپنی گاڑی چورنگی سے ٹکرادی۔ دھماکے کے نتیجے میں کم از کم 11 افراد ہلاک اور 27 زخمی ہوگئے جن میں تین پولیس اہلکار بھی شامل تھے۔
بعد ازاں شاؤلہ کے علاقے میں ایک ہی سڑک پر آدھے گھنٹے کے وقفے سے پہلے ایک کار بم دھماکہ اور پھر کار سوار خود کش حملہ ہوا۔
آئسکریم کی دکان کے باہر ہونے والے پہلے دھماکے میں آٹھ افراد ہلاک اور 18 زخمی ہوگئے جب کہ خود کش حملہ آور کی جانب سے اپنی بارود سے بھری گاڑی میں دھماکہ کرنے کے نتیجے میں مزید 15 افراد مارے گئے اور 44 زخمی ہوگئے۔
اس سے قبل بغداد کے نواحی شمالی علاقے کے ایک بازار میں ہونے والے خود کش حملے کے نتیجے میں کم از کم 11 افراد ہلاک اور 21 زخمی ہوگئے تھے۔
پولیس حکام کے مطابق دھماکہ بغداد کے نواحی قصبوں ترمیہ اور مشہادا کے نزدیک ہوا جہاں کچھ عرصہ قبل تک عراقی فوج اور شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کے جنگجووں کے خلاف جھڑپیں ہوتی رہی ہیں۔
ہفتے کو تشدد کا ایک اور واقعہ بغداد سے 90 کلومیٹر شمال مشرق میں واقع قصبہ ادیم میں پیش آیا جہاں اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے چار عراقی فوجی ہلاک ہوگئے۔
حکام کے مطابق دولتِ اسلامیہ سے لڑائی میں زخمی ہونے والے عراقی فوجیوں کو ایک نزدیکی اسپتال منتقل کیا جارہا تھا کہ اس دوران وہاں تعینات ایک شیعہ ملیشیا کے ارکان نے انہیں شدت پسند سمجھ کر فوجیوں کی گاڑی پر راکٹ داغ دیا۔
عراق میں سنی شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کی پیش قدمی اور ملک کے سنی اکثریتی علاقوں پر قبضے کے بعد سے عراقی حکومت کے زیرِانتظام علاقوں میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر تشدد میں ایک بار پھر اضافہ ہوگیا ہے۔
عراقی حکومت نے سنی شدت پسندوں سے مقابلے میں عراقی فوج کی مدد کے لیے شیعہ قبائل پر مشتمل ملیشیائیں بھی قائم کر رکھی ہیں جن پر انسانی حقوق کے بین الاقوامی ادارے فرقہ وارانہ بنیادوں پر تشدد کے واقعات میں ملوث قرار دینے کا الزام عائد کرتے ہیں۔
دولتِ اسلامیہ کے خلاف امریکہ کی قیادت میں جاری بین الاقوامی فضائی کارروائیوں کی توجہ شام کی جانب مبذول ہوجانے کے باعث عراق میں دولتِ اسلامیہ کے جنگجووں اور عراقی فوج کے درمیان بعض علاقوں میں لڑائی شدت اختیار کرگئی ہے۔