واشنگٹن —
عراقی اہل کاروں کا کہنا ہے کہ ایک کُرد سیاسی جماعت کے دفتر کے باہر ہونے والے دو بم دھماکوں میں کم از کم 18 افراد ہلاک اور 65 سے زائد زخمی ہوئے۔
اتوار کو ہونے والے دھماکے، جن میں ایک خودکش حملہ بھی شامل ہے، صدر جلال طالبانی کی ’پیٹریاٹک یونین آف کردستان (پی یو کے) پارٹی‘ کے دفتر کے باہر واقع ہوئے، جو کہ سلامتی افواج کی عمارت کے قریب ہے۔
دوسرا بم حملہ عین اُس وقت ہوا جب پہلے دھماکے کے بعد ہنگامی امداد فراہم کرنے والے کارکن موقعے پر پہنچے۔
ابھی تک کسی نے اِس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی، جو صوبہٴدیالہ میں جلولہ کے قصبے میں ہوا، جو بغداد کے شمال مشرق میں واقع ہے۔
گذشتہ چند برسوں کے دوران،عراق میں تشدد کے سنگین واقعات سامنے آئے ہیں، اور صرف مئی سے اب تک تقریباً 800 افراد ہلاک ہوئے، جو کہ سال بھر کے دوران ہر ماہ ہونے والی اموات کی اوسط تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔
ہفتے کے دِن، عراقی دارالحکومت میں کار بم حملوں کا ایک سلسلہ جاری رہا جِن میں تقریباً 60 افراد ہلاک ہوئے، جو دِن بھر ہونے والی تشدد کی کارروائیوں کا ایک حصہ تھا، جس میں شدت پسندوں کی طرف سے عراقی یونیورسٹی پر ہونے والا حملہ شامل ہے۔
بغداد میں ہونے والے اِن دھماکوں کا ہدف خاص طور پر شیعہ علاقے تھے، جن سے فرقہ واریت کے واقعات کی بو آتی ہے، جو عراق میں زور پکڑتے جا رہے ہیں۔
باقی مقامات پر، موصل کے شمالی شہر میں شدت پسندوں اور سکیورٹی افواج کے درمیان لڑائی کے دوسرے دِن مزید شدت آئی۔ حکام کا کہنا ہے کہ اِن جھڑپوں میں 38 شدت پسند اور 21 پولیس اہل کار ہلاک ہوئے۔
عراق کے مغربی صوبے، انبار میں مسلح افراد نے ایک یونیورسٹی پر حملہ کیا اور درجنوں طلبا اور عملے کے ارکان کو یرغمال بنا لیا، جس کے کہیں بعد سکیورٹی سے متعلق فورسز نے کیمپس پر قبضہ چھڑانے کے لیے کارروائی کی، جس کے نتیجے میں یرغمالیوں کو آزاد کرالیا گیا اور اُنھیں بسوں کے ذریعے منتقل کیا گیا۔
اتوار کو ہونے والے دھماکے، جن میں ایک خودکش حملہ بھی شامل ہے، صدر جلال طالبانی کی ’پیٹریاٹک یونین آف کردستان (پی یو کے) پارٹی‘ کے دفتر کے باہر واقع ہوئے، جو کہ سلامتی افواج کی عمارت کے قریب ہے۔
دوسرا بم حملہ عین اُس وقت ہوا جب پہلے دھماکے کے بعد ہنگامی امداد فراہم کرنے والے کارکن موقعے پر پہنچے۔
ابھی تک کسی نے اِس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی، جو صوبہٴدیالہ میں جلولہ کے قصبے میں ہوا، جو بغداد کے شمال مشرق میں واقع ہے۔
گذشتہ چند برسوں کے دوران،عراق میں تشدد کے سنگین واقعات سامنے آئے ہیں، اور صرف مئی سے اب تک تقریباً 800 افراد ہلاک ہوئے، جو کہ سال بھر کے دوران ہر ماہ ہونے والی اموات کی اوسط تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔
ہفتے کے دِن، عراقی دارالحکومت میں کار بم حملوں کا ایک سلسلہ جاری رہا جِن میں تقریباً 60 افراد ہلاک ہوئے، جو دِن بھر ہونے والی تشدد کی کارروائیوں کا ایک حصہ تھا، جس میں شدت پسندوں کی طرف سے عراقی یونیورسٹی پر ہونے والا حملہ شامل ہے۔
بغداد میں ہونے والے اِن دھماکوں کا ہدف خاص طور پر شیعہ علاقے تھے، جن سے فرقہ واریت کے واقعات کی بو آتی ہے، جو عراق میں زور پکڑتے جا رہے ہیں۔
باقی مقامات پر، موصل کے شمالی شہر میں شدت پسندوں اور سکیورٹی افواج کے درمیان لڑائی کے دوسرے دِن مزید شدت آئی۔ حکام کا کہنا ہے کہ اِن جھڑپوں میں 38 شدت پسند اور 21 پولیس اہل کار ہلاک ہوئے۔
عراق کے مغربی صوبے، انبار میں مسلح افراد نے ایک یونیورسٹی پر حملہ کیا اور درجنوں طلبا اور عملے کے ارکان کو یرغمال بنا لیا، جس کے کہیں بعد سکیورٹی سے متعلق فورسز نے کیمپس پر قبضہ چھڑانے کے لیے کارروائی کی، جس کے نتیجے میں یرغمالیوں کو آزاد کرالیا گیا اور اُنھیں بسوں کے ذریعے منتقل کیا گیا۔