رسائی کے لنکس

عراق: داعش کے حملے میں 10 اہل کار ہلاک


رقہ کے شمالی علاقے میں اسلامک اسٹیٹ کے جنگجو اپنی قوت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ فائل فوٹو
رقہ کے شمالی علاقے میں اسلامک اسٹیٹ کے جنگجو اپنی قوت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ فائل فوٹو

عراق میں ہفتے کے روز نامہ نگار وائن لی کے مطابق اسلامک اسٹیٹ یا داعیش کے جنگجوؤں نے ایک مربوط حملے میں ایک عراقی نیم فوجی تنظیم کے دس اہل کاروں کو وسطی شہر سامرہ کے قریب ہلاک کر دیا۔

یہ آئی ایس کے خوابیدہ سیل کی جانب سے مہینوں کے دوران ہونے والا مہلک ترین حملہ تھا۔ جس کا سلسلہ انہوں نے ملک کے شمالی اور مغربی حصوں میں عراقی سیکیورٹی فورسز پر 'حملہ کرو اور بھاگ جاؤ' کی حکمت عملی کے تحت شروع کر رکھا ہے۔

خیال رہے کہ سامرہ شیعہ مسلک کے لحاظ سے ایک انتہائی متبرک شہر ہے اور یہ ماضی میں بھی جب عراق میں آئی ایس کا زور تھا اکثر ان کے حملوں کے اندیشوں کے سبب بند رکھا گیا۔

گزشتہ ہفتے اسلامک اسٹیٹ یعنی آئی ایس نے کرکوک کے ایک انٹیلی جینس آفس کے باہر خود کش حملے کی ذمہ داری کا دعوی کیا تھا جس میں چار افراد زخمی ہوئے تھے۔ قبل ازیں شام اور افغانستان وغیرہ میں بھی آئی ایس کی جانب سے حملے ہوتے رہے ہیں۔ اور آئی ایس کی ان سرگرمیوں سے اب یہ تشویش بڑھ رہی ہے کہ کیا یہ جہادی گروپ دوبارہ سرگرم ہو رہا ہے۔ اور ایک بار پھر خطرہ بن رہا ہے۔

خیال رہے کہ ایک زمانے میں اسلامک اسٹیٹ کا عراق کے ایک تہائی حصے پر اور پڑوسی ملک شام کے بھی اچھے خاصے حصے پر کنٹرول تھا۔ اور تین سال کی فوجی کارروائیوں کے بعد عراق نے 2017 میں آئی ایس پر اپنی مکمل فتح کا اعلان کیا تھا۔

دہشت گردی کے امور کے ایک ماہر میری ٹائم اسٹڈی فورم کے سلمان جاوید نے اس حوالے سے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں خاص طور سے اس کا اثر اس لئے بڑھ رہا ہے کہ ٹی ٹی پی یا جماعت آل احرار جیسے گروپ جن کو پاکستان سے نکالا گیا وہ ایک نئی شناخت یا نیا بریںڈ نیم حاصل کرنے کے لئے اس کی صفوں میں جا رہے ہیں۔ اور جس طرح سے انہیں وہاں استعمال کیا جا رہا اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ان کی پشت پر کوئی تیسرا فریق ہے جس کا مقصد طالبان اور امریکہ کے درمیان ہونے ہونے والے معاہدے کو برباد کرنا اور ایسی صورت حال پیدا کرنا ہے کہ وہاں امن قائم نہ ہونے پائے۔

سلمان جاوید کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے مغربی ممالک کے بعض تجزیہ کاروں کو بھی تشویش ہے اور انہوں نے اس سلسلے میں دو مغربی جریدوں کے مضامین کا حوالہ بھی دیا جس میں بقول ان کے ایک ملک کی انٹیلی جینس ایجنسی کا نام بھی لیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عراق میں اس وقت آئی ایس کو کوئی بڑی کامیابی ہوتی نظر نہیں آتی اور پاکستان میں بھی اس کے تمام سیل بڑی کامیابی سے ختم کر دیے گئے ہیں۔ البتہ شام میں جو صورت حال ہے، اس کے پیش نظر اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وہاں یہ ابھر سکتی ہے۔

سلمان جاوید کا کہنا تھا کہ کہ سوشل میڈیا ان کے لئے ایک ریکروٹنگ پلیٹ فارم ہے اور اس کی جانب دنیا کو توجہ دینی چاہئیے۔

انہوں نے کہا کہ اس گروپ کو افغانستان میں طالبان کو روکنے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے جو امریکہ کے ساتھ ہونے والے معاہدے سے دستبردار نہیں ہوئے ہیں۔ نہ امریکہ اسے ترک کرنا چاہتا ہے اور ان حالات میں اس فریق کی اور اس کی پشت پناہی کرنے والوں کی نشاندہی ضروری ہے جن کے مفادات کو اس معاہدے پر عمل در آمد سے نقصان پہنچے گا۔

XS
SM
MD
LG