عراق میں سنی عسکریت پسندوں نے نیم خود مختار کرد علاقے کے قریب حملے میں مسیحی برادری کے سب سے بڑے شہر قراقوش کے علاوہ طل کیف اور کئی دیگر قصبوں پر قبضہ کر لیا جہاں سے ہزاروں کی تعداد میں عیسائی برادری کے لوگ جان بچا کر نکلنے پر مجبور ہوئے۔
’اسلامک اسٹیٹ‘ کے جنگجوؤں کی شمالی عراق میں تازہ پش قدمی عراقی حکومت اور خطے کے دوسرے ممالک کے لیے تشویش کا باعث ہے۔
پوپ فرانسس نے عالمی رہنماؤں سے اپیل کی کہ وہ اس انسانی المیے کے حل میں مدد کریں۔
شمالی عراق میں عیسائی آبادی کی اکثریت والے علاقوں پر جمعرات کو سنی شدت پسندوں کے گروپ کے جنگجوؤں کے قبضے کے بعد ہزاروں کی تعداد میں لوگ وہاں سے نقل مکانی پر مجبور ہو گئے۔
عینی شاہدین کے مطابق عسکریت پسندوں نے عراق کے نیم خود مختار کرد علاقے کے قریب بدھ کی شب اپنی کارروائی شروع کی۔ علاقے کے عیسائی مذہبی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں عام شہری اور کرد جنگجو، جو ان کی حفاظت کر رہے تھے وہاں سے نکلنے پر مجبور ہوئے۔
سنی اسلامی شدت پسندوں نے شمالی عراق اور شام میں اپنے زیر قبضہ علاقوں کو ’اسلامک اسٹیٹ‘ کا نام دے کر وہاں ’خلافت‘ کے قیام کا اعلان کر رکھا ہے اور اس دوران انہوں نے مذہبی اقلیتوں کے کئی افراد کو یا تو ہلاک کیا یا وہاں سے فرار پر مجبور ہو گئے۔
گزشتہ ہفتے کے دوران اسلامی عسکریت پسندوں نے کرد فورسز کو شکست دینے کے بعد ترکی اور شامی سرحد کے قریب تیل کے دو کنوؤں سمیت کئی اہم علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا۔
اتوار کو اسلامی شدت پسند گروہ کی طرف سے دھمکی کے بعد، یزیدی اقلیتی برادری کے ہزاروں افراد نینوا صوبے سے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے اور اب وہ سنجر کے پہاڑوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں جہاں انہیں فاقہ کشی کا سامنا ہے۔
اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی ہمدردی کے ایک ترجمان نے جمعرات کو کہا ہے کہ یزیدی برداری کے کچھ افراد کو بچا لیا گیا ہے اور ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ ان تک مزید امداد پہچانے کے لیے تیاری کر رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ گزشتہ کچھ روز کے دوران دولاکھ لوگ اس علاقے سے نکلنے پر مجبور ہوئے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے رواں ہفتہ عسکریت پسندوں کو متنبہ کیا تھا کہ اقلیتوں کے خلاف رواں رکھے جانے والے مبینہ ظلم کے لیے ان کو انسانیت کے جرائم کا مرتکب ٹھہرایا جائے گا۔
ایک بیان میں سلامتی کونسل نے کہا کہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ نا صرف عراق اور شام بلکہ خطے کی امن و سلامتی اور استحکام کے لیے بھی خطرہ ہے۔
بدھ کو عراق میں تشدد کے واقعات میں 100 سے زائد افراد ہلاک ہوئے جن میں عام شہری اور ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے جنگجو شامل ہیں۔
عراق کی دو مصروف مارکیٹوں میں کار بم دھماکوں میں کم از کم 47 افراد ہلاک ہوئے۔
ایک دھماکا شیعہ اکثریتی علاقے جب کہ دوسرا اُر نامی علاقے میں ہوا۔
عراقی عہدیداروں کے مطابق بدھ ہی کو موصل میں جنگجوؤں کے زیر قبضہ عمارتوں پر فضائی کارروائی میں 60 افراد ہلاک ہوئے۔
بظاہر فضائی کارروائی کا ہدف جنگجوؤں کے زیر قبضہ ایک جیل کی عمارت تھی جسے وہ اسلامی عدالت اور حراستی مرکز کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
عہدیداروں کے مطابق کارروائی کے دروان جنگجوؤں کے زیر حراست تین سو افراد بچ نکلے۔ یہ واضح نہیں کہ اس میں کوئی شہری بھی ہلاک ہوا یا نہیں۔
اُدھر دوسری جانب شیعہ، کرد اور متعدل سنی قانون ساز ملک میں نئی حکومت کے قیام کی کوششوں پر اب بھی کسی فیصلے پر نہیں پہنچے۔