امریکی فوج کے سربراہ نے جمعرات کو بتایا کہ امریکہ عراقی فوج کی تربیت اور مشاورت کے لیے مزید مراکز کھولنے پر غور کر رہا ہے، ایسے میں جب وہ صوبہ انبار میں ایک نیا فوجی اڈا کھولنے کی تیاری کر رہا ہے، جہاں 450 فوجی اہل کار تعینات ہوں گے۔ بقول اُن کے، ’یہ ایک اور آپشن ہے جو زیرِ غور ہے۔‘
یہ بات چیرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف، جنرل مارٹن ڈیمپسی نے اٹلی کے شہر نیپلس میں اخباری نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہی۔ اِن دِنوں وہ امریکی کمانڈروں سے ملاقات کے لیے اٹلی میں ہیں۔
ڈیمپسی نے کہا کہ رمادی کے صوبائی دارالحکومت کے قریب تقدم کے مقام پر نئے اڈے کھولنے کے علاوہ نئے مقامات کی تلاش کا کام جاری ہے۔ داعش کے باغیوں نے گذشتہ ماہ رمادی پر قبضہ کر لیا تھا، جس کے باعث نئے اڈوں کے مقامات کی تلاش حکمت عملی کا تقاضا ہے۔
فوجی سربراہ نے کہا کہ وہ انبار میں کسی نئے فوجی بیس کی تعمیر کے بارے میں نہیں سوچ رہے ہیں۔ تاہم، دارالحکومت بغداد کے شمالی خطے میں ایک تنصیب کا قیام ممکن ہے، جو موصل تک پھیلا ہوا ہوگا، جو عراق کا دوسرا سب سے بڑا شہر ہے، جسے شدت پسندوں نے ایک سال قبل قبضہ جما لیا تھا۔
اگلے چھ سے آٹھ ہفتوں کے اندر، امریکہ اپنے نئے مشیر تعینات کر دے گا، جس کا مقصد عراق کی بَری فوج کی قوت میں اضافہ کرنا ہے۔
گذشتہ ستمبر سے لے کر امریکی قیادت میں کارفرما اتحاد نے عراق اور شام میں داعش کے شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر 4400 فضائی حملے کیے ہیں، لیکن امریکی صدر براک اوباما نے زمینی فوج بھیجنے کے امکان کو بعید ازامکان قرار دیا ہے۔
پینٹاگان کے ترجمان، کرنل اسٹیو وارن نے بدھ کے روز کہا ہےکہ، ’تقدم کے مقام پر امریکی افواج عراقی فوج کے آٹھویں ڈویژن کو مشاورت فراہم کریں گے، جس سے اُن کے فوجیوں کی بہتر تعیناتی، اُن کے قیام کا بہتر انتظام اور خفیہ معلومات کے تبادلے میں مدد ملے گی۔
یہ مشیر اس بات کے بھی کوشاں ہوں گے کہ عراقی حکومت انبار کے سنی قبائل کو کس طرح سے اپنے ساتھ ملایا جائے، تاکہ سنی ملیشیاؤں کو حکومت حامی فورسز سے رابطہ ہو، تاکہ داعش کے خلاف لڑائی میں مدد ملے۔