عراق میں نو منتخب پارلیمنٹ کا پہلا اجلاس منگل کو بغیر کسی پیش رفت کے ختم ہو گیا اور ملک کے نئے وزیراعظم کا انتخاب نا ہو سکا۔
گزشتہ اپریل کو ملک میں پارلیمانی انتخابات کے بعد منگل کو پہلی مرتبہ منتخب قانون سازوں کا اجلاس ہوا لیکن قائم مقام اسپیکر مہدی حفیظ نے اجلاس اُس وقت ختم کرنے کا اعلان کیا جب وقفے کے بعد لوگ پارلیمنٹ ہاؤس میں واپس نہیں آئے۔
عراق میں قانون سازوں پر دباؤ ہے کہ وہ ملک میں شدت پسندی سے نمٹنے کے لیے نئی حکومت تشکیل دیں۔
اجلاس کے شروع میں عراق کا قومی ترانہ پیش کیا گیا جب کہ سب سے سینیئر قانون ساز ابتدائی مہدی حفیظ نے سیشن میں بطور اسپیکر ذمہ داری نبھائی۔
وزیراعظم نوری المالکی تیسری مرتبہ وزارت عظمٰی کے لیے سب سے مضبوط اُمیدوار تھے، لیکن حالیہ ہفتوں میں سنی شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ فی عراق ولشام کے جنگجوؤں کی طرف سے ملک کے شمال اور مغرب میں بڑے علاقوں پر قبضہ کے بعد ملک ایک بحران کا شکار ہو چکا ہے۔
مغربی رہنماؤں نے عراقی عہدیداروں پر زور دیا ہے کہ وہ شیعہ، سنی اور کرد آبادی کے درمیان فرقہ وارانہ تقسیم سے نمٹنے کے لیے سب فرقوں کی شمولیت سے حکومت بنائیں۔
وائٹ ہاؤس کے پریس سیکرٹری جوش اینرسٹ نے پیر کو بتایا کہ یہ عراق پر منحصر ہے کہ وہ کس کو اپنا لیڈر منتخب کرتا ہے تاہم امریکہ کو اُمید ہے کہ قانون ساز جلد اس بارے میں اتفاق رائے قائم کر لیں گے۔
اُدھر اقوام متحدہ نے منگل کو ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ عراق میں دہشت گردی اور تشدد کے واقعات میں جون کے مہینےمیں 2417 افراد ہلاک جب کہ 2287 زخمی ہوئے۔