عراق کے سنی اکثریتی مغربی صوبے میں ہزاروں افراد نے حکومت کے خلاف مظاہرے میں حصہ لیا۔ اس سے قبل بھی علاقے میں شیعہ اکثریتی حکومت کے خلاف متعدد مظاہرے ہوچکے ہیں۔
جمعے کے روز مظاہرین دارالحکومت بغداد کے مغرب میں واقع صوبے انبار میں اکھٹے ہوئے ۔ انہوں نے پلے کارڈ اور بینراٹھا رکھے تھے اور وہ وزیر اعظم نوری المالکی اور ان کی حکومت کے خلاف نعرے لگارہے تھے۔
مظاہرین کا کہناتھا کہ شیعہ اکثریتی حکومت سنی مسلمانوں کے حقوق دبارہی ہے ۔
عراق کے شیعہ اور سنی مسلمانوں کے درمیان تناؤ میں پچھلے ہفتے سے مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ گذشتہ ہفتے حکومت نے وزیر مالیات رافیہ العیسوی کے 10 محافظوں کو گرفتار کر لیاتھا۔
العیسوی اعلیٰ ترین سنی عہدے داروں میں شامل ہیں۔
سنی اقلیت میں سے اکثر ان گرفتاریوں کو سیاسی قرار دے رہے ہیں۔
مظاہرین کئی روز سے احتجاج کررہے ہیں اور انہوں نے صوبے انبار کی اہم شاہراہیں بند کررکھی ہیں۔ ان کا کہناہے کہ وہ اس وقت تک احتجاج کرتے رہیں گے جب تک حکومت ان کے مطالبات منظور نہیں کرلیتی ۔
ان کے مطالبات کی فہرت میں سنی قیدیوں کی رہائی اور دہشت گردی کے قوانین میں ترمیم کرنا بھی شامل ہے۔
سنی اور شیعہ فرقوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی سے فرقہ واریت کا خطرہ بڑھتا جارہاہے اور یہ ایک ایسے وقت میں ہورہاہے جب امریکی فوجیوں کو واپس گئے محض ایک سال ہوا ہے۔
جمعے کے روز مظاہرین دارالحکومت بغداد کے مغرب میں واقع صوبے انبار میں اکھٹے ہوئے ۔ انہوں نے پلے کارڈ اور بینراٹھا رکھے تھے اور وہ وزیر اعظم نوری المالکی اور ان کی حکومت کے خلاف نعرے لگارہے تھے۔
مظاہرین کا کہناتھا کہ شیعہ اکثریتی حکومت سنی مسلمانوں کے حقوق دبارہی ہے ۔
عراق کے شیعہ اور سنی مسلمانوں کے درمیان تناؤ میں پچھلے ہفتے سے مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ گذشتہ ہفتے حکومت نے وزیر مالیات رافیہ العیسوی کے 10 محافظوں کو گرفتار کر لیاتھا۔
العیسوی اعلیٰ ترین سنی عہدے داروں میں شامل ہیں۔
سنی اقلیت میں سے اکثر ان گرفتاریوں کو سیاسی قرار دے رہے ہیں۔
مظاہرین کئی روز سے احتجاج کررہے ہیں اور انہوں نے صوبے انبار کی اہم شاہراہیں بند کررکھی ہیں۔ ان کا کہناہے کہ وہ اس وقت تک احتجاج کرتے رہیں گے جب تک حکومت ان کے مطالبات منظور نہیں کرلیتی ۔
ان کے مطالبات کی فہرت میں سنی قیدیوں کی رہائی اور دہشت گردی کے قوانین میں ترمیم کرنا بھی شامل ہے۔
سنی اور شیعہ فرقوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی سے فرقہ واریت کا خطرہ بڑھتا جارہاہے اور یہ ایک ایسے وقت میں ہورہاہے جب امریکی فوجیوں کو واپس گئے محض ایک سال ہوا ہے۔