سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیرنے ہفتے کے روز بغداد کا ایک تاریخی دورہ کیا جو 1990 کے بعد سے کسی سعودی عہدے دار کا عراق کا اعلی سطح کا پہلا دورہ تھا۔ عادل نے عراقی وزیر اعظم حیدر العبیدی سے کئی گھنٹے تک ملاقات کی۔
ایسے میں کہ جب دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان کشیدگی جاری ہے، ہفتے کےروز سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیرکے بغداد کے دورے پر بہت سے مبصرین کو حیرت ہوئی۔
یہ دورہ ایک ایسے وقت ہوا ہے کہ جب عراق کی سرکاری فورسز سنی اکثریت کے شہر موصل میں مزید اندر تک پیش قدمی کر رہی ہیں۔
یہ اعلان کہ سعودی عرب عراق کےلیے ایک نیا سفیر نامزد کرے گا ،عراق کی شیعہ اکثریتی حکومت اور اس کے سنی اکثریت کے پڑوسی کے درمیان تعلقات بہتر بنانے کی ایک تازہ کوشش دکھائی دیتی ہے۔
دونوں فریق اس عزم کا اظہار کر چکے ہیں کہ داعش اور اسلامی عسکریت پسندی کی دوسری قسموں کے خلاف اپنی کوششوں کو دوگنا کر دیں گے ۔
سعودی عرب نے یہ وعدہ بھی کیا ہے کہ وہ عراق کے ان پناہ گزینوں کی مدد کے لیے 90 لاکھ ڈالر کا عطیہ دے گا جو سنی اکثریتی علاقے صوبے اانبار اور موصل سے فرار ہوئے ہیں۔
وزیر خارجہ جبیر نے بغداد کے ساتھ تعاون میں اضافے کا عہد کیا اور زور دے کر کہا کہ سعودی عرب ہر مذہبی فرقے کے عراقیوں کے ساتھ اپنے تعلقات میں برابری کا رویہ بر قرار رکھے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ریاض تمام مذہبی فرقوں کے عراقیوں کے ساتھ اپنے تعلقات ایک جیسے رکھے گا اور وہ عراقیوں کی جانب سے دوسرے عراقیوں کی ہلاکت کی مذمت کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ سعودی عرب داعش یا القاعدہ سمیت ہر قسم کی دہشت گردی کے مقابلے کے لیے عراق کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔
عراقی وزیر خارجہ ابراہیم الجعفری نے بغداد اور ریاض کے درمیان ، سیاسی اور اقتصادی دونون سطح پر تعلقات مضبوط بنانے کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ دونوں فریق تجارت اور دوسرے شعبوںمیں اقتصادی تعاون بہتر بنانے کے لیے کام کریں گے۔
ابراہیم الجعفری کا کہنا تھا کہ وہ ان تما م اقدامات کا خیر مقدم کرتے ہیں جن سے دونوں ملکوں کو فائدہ ہو گا ۔ ان میں پڑوسیوں کے درمیان جمائما کی سرحد کھولنا اور دوسری قسم کا اقتصادی تعاون شامل ہے۔
عراق کے سرکاری ٹی وی نے خبر دی کہ وزیر خارجہ جبیر اور وزیر اعظم عبیدی نے دو گھنٹے سے زیادہ وقت کے لیے ملاقات کی لیکن انہوں نے اپنی گفتگو کا متن جاری نہیں کیا۔