عراق کی صورتحال کے پیش نظر امریکہ نے اپنے ایک طیارہ بردار بحری بیڑے کو خلیج جانے کا حکم دے دیا ہے۔
پینٹاگون کے ترجمان ریئیر ایڈمرل جان کیربی نے کہا ہے کہ وزیر دفاع چک ہیگل نے شمالی بحیرہ عرب سے "یو ایس ایس جارج ایچ ڈبلیو بش" بحری بیڑے کو خلیج بھیجنے کا حکم دیا۔
کیربی کا کہنا تھا کہ اس حکم سے صدر براک اوباما کو ’’عراق میں امریکی شہریوں اور مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے فوجی آپشنز استعمال کرنے کے بارے میں اضافی سہولت دستیاب ہوسکے گی۔"
اس بیڑے کے ساتھ گائیڈڈ میزائل سے لیس تیز رفتار کشتیاں بھی ہوں گی۔
ادھر سینکڑوں کی تعداد میں عراقی نوجوان عسکریت پسندوں کے خلاف لڑائی کے لیے دارالحکومت بغداد اور دوسرے مقامات پر رضاکارانہ طور پر اپنا اندراج کروا رہے ہیں۔
ان کا یہ ردعمل عراق کے سب سے بڑے شیعہ عالم دین آیت اللہ علی السیستانی اس کے اعلان کے بعد سامنے آیا جس میں انہوں نے عوام سے ملک کے شمال میں آگے بڑھتے ہوئے شدت پسندوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا مطالبہ کیا تھا۔
سیستانی کے ایک ترجمان عبدالمہدی الکربلائی نے عراقیوں پر زور دیا کہ وہ ’’ملک، اس کی عوام اور اس کے مقدس مقامات کے دفاع کے لیے دہشت گردوں سے جنگ کریں‘‘۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت اس جنگ میں حصہ لینا ہر ایک کی ذمہ داری ہے۔
عراق کے وزیراعظم نور المالکی نے سمارا میں موجود فوجی افسران سے کہا ہے کہ رضا کار ان کی مدد کے لیے وہاں پہنچ رہے ہیں۔
انہوں نے بغداد کے شمال اور مغرب میں ایک بڑے حصے پر قابض سنی عسکریت پسندوں کو شکست دینے کے عزم کا اعادہ بھی کیا۔
وزیراعظم نے موصل شہر میں بھگوڑے فوجیوں کو اپنی ڈیوٹی پر واپس آنے کی تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ بصورت دیگر ان کے خلاف سخت کارروائی جس میں موت کی سزا بھی شامل ہے، کی جائے گی۔
عراقی فوج نے متواتر شکست کے بعد دوبارہ کچھ پیش رفت کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
پینٹاگون کے ترجمان ریئیر ایڈمرل جان کیربی نے کہا ہے کہ وزیر دفاع چک ہیگل نے شمالی بحیرہ عرب سے "یو ایس ایس جارج ایچ ڈبلیو بش" بحری بیڑے کو خلیج بھیجنے کا حکم دیا۔
کیربی کا کہنا تھا کہ اس حکم سے صدر براک اوباما کو ’’عراق میں امریکی شہریوں اور مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے فوجی آپشنز استعمال کرنے کے بارے میں اضافی سہولت دستیاب ہوسکے گی۔"
اس بیڑے کے ساتھ گائیڈڈ میزائل سے لیس تیز رفتار کشتیاں بھی ہوں گی۔
ادھر سینکڑوں کی تعداد میں عراقی نوجوان عسکریت پسندوں کے خلاف لڑائی کے لیے دارالحکومت بغداد اور دوسرے مقامات پر رضاکارانہ طور پر اپنا اندراج کروا رہے ہیں۔
ان کا یہ ردعمل عراق کے سب سے بڑے شیعہ عالم دین آیت اللہ علی السیستانی اس کے اعلان کے بعد سامنے آیا جس میں انہوں نے عوام سے ملک کے شمال میں آگے بڑھتے ہوئے شدت پسندوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا مطالبہ کیا تھا۔
سیستانی کے ایک ترجمان عبدالمہدی الکربلائی نے عراقیوں پر زور دیا کہ وہ ’’ملک، اس کی عوام اور اس کے مقدس مقامات کے دفاع کے لیے دہشت گردوں سے جنگ کریں‘‘۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت اس جنگ میں حصہ لینا ہر ایک کی ذمہ داری ہے۔
عراق کے وزیراعظم نور المالکی نے سمارا میں موجود فوجی افسران سے کہا ہے کہ رضا کار ان کی مدد کے لیے وہاں پہنچ رہے ہیں۔
انہوں نے بغداد کے شمال اور مغرب میں ایک بڑے حصے پر قابض سنی عسکریت پسندوں کو شکست دینے کے عزم کا اعادہ بھی کیا۔
وزیراعظم نے موصل شہر میں بھگوڑے فوجیوں کو اپنی ڈیوٹی پر واپس آنے کی تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ بصورت دیگر ان کے خلاف سخت کارروائی جس میں موت کی سزا بھی شامل ہے، کی جائے گی۔
عراقی فوج نے متواتر شکست کے بعد دوبارہ کچھ پیش رفت کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔