عراق میں موصل شہر کو داعش کے شدت پسندوں سے آزاد کروانے کے لیے کارروائی جاری ہے اور عراقی فورسز پیش قدمی کرتے ہوئے اس شہر کے جنوب میں واقع داعش کے زیر تسلط علاقے میں داخل ہو گئی ہیں۔
عراقی کمانڈرز نے ہفتہ کو بتایا کہ شوریٰ نامی اس علاقے سے شہریوں کو ڈھال بنا کر شدت پسند پہلے ہی بڑی تعداد میں نکل چکے ہیں، لیکن امریکی زیر قیادت اتحاد کی فضائی کارروائی کی وجہ سے شہریوں کو زبردستی اپنے ساتھ لے جانے کا منصوبہ متاثر ہوا اور بہت سے شہری ان کے چنگل سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے۔
عراقی فوج کے میجر جنرل نجم الجبوری کا کہنا ہے کہ "اس ساری بمباری کے بعد میرا نہیں خیال کہ ہمیں زیادہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے۔ یہ بہت آسان ہے کیونکہ علاقے میں اب کوئی شہری موجود نہیں ہے۔"
تاہم فیڈرل پولیس کے عہدیدار لیفٹیننٹ کرنل حسین ناظم کے بقول ہو سکتا ہے کہ اب بھی یہاں کچھ شہری ہوں لیکن "(ایسی صورتحال میں) فضائی کارروائیاں مروجہ حکمت عملی ہوتی ہے۔"
موصل کو آزاد کروانے کے لیے لڑائی گزشتہ ہفتے شروع کی گئی تھی اور جنوب کی سمت سے اس طرف بڑھنے والی فورسز اب بھی شہر سے 35 کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں لیکن دیگر سمتوں میں شہر کے قریب لڑائی جاری ہے۔
اس لڑائی میں عراقی فورسز کے علاوہ کرد پیش مرگہ اور مقامی شیعہ ملیشیا بھی شامل ہیں جنہیں امریکہ کی زیر قیادت اتحاد کی فضائی معاونت بھی حاصل ہے۔
ادھر ہفتہ کو ہی اس لڑائی میں شامل شیعہ ملیشیا نے موصل کے مغرب میں داعش کے خلاف ایک حملہ کیا لیکن اس کا کہنا ہے کہ وہ سنی اکثریتی آبادی والے شہر میں داخل نہیں ہوگی۔
امریکی خبر رساں ایجنسی "ایسوسی ایٹڈ پریس" نے حزب اللہ بریگیڈ نامی گروپ کے ایک ترجمان جعفر الحسینی کے حوالے سے بتایا کہ انھوں نے دیگر فورسز کے ساتھ مل کر تلعفر کے علاقے کی طرف حملوں کو سلسلہ شروع کیا ہے۔
یہ علاقہ شیعہ اکثریتی آبادی والا شہر تھا لیکن 2014ء میں داعش کے قبضے میں آنے کے بعد یہاں سنیوں کی تعداد زیادہ ہو گئی۔
الحسینی نے بتایا کہ ایرانی فورسز انھیں مشاورت جب کہ عراقی طیارے انھیں فضائی معاونت فراہم کر رہے ہیں۔ ان کے بقول ملیشیا اپنی توجہ تلعفر اور شام کے ساتھ مغربی سرحد کو محفوظ بنانے پر مرکوز کیے ہوئے ہے۔