لاہور ہائی کورٹ نے ننکانہ صاحب کی رہائشی سکھ خاتون جگجیت کور کو والدین سے ملاقات کی ہدایت کرتے ہوئے دوبارہ دارالامان منتقل کرنے کا حکم دیا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے نو مسلم لڑکی کی درخواست پر جمعرات کو سماعت کی تھی، جس میں پنجاب حکومت اور آئی جی پنجاب کو فریق بنایا گیا ہے۔
جگجیت کور نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ وہ اپنی مرضی سے مسلمان ہوئی اور اپنی مرضی سے شادی کی ہے۔ عدالتی حکم پر سی سی پی او لاہور نے نو مسلم لڑکی عائشہ (جگجیت کور کا نیا نام) کو لاہور ہائی کورٹ میں پیش کیا۔
مقامی پولیس نے عدالت میں بیان دیا کہ ننکانہ صاحب میں امن و امان کی صورتِ حال ٹھیک نہیں ہے۔ سکھ لڑکی جگجیت کور نے عدالت میں بیان دیا کہ وہ اپنی مرضی سے مسلمان ہوئی ہے اور اپنے والدین کے ساتھ نہیں جانا چاہتی۔
عائشہ نے کہا کہ "میں نے 10 منٹ اپنے والدین سے ملاقات کی ہے۔ میں اُن کے ساتھ نہیں جانا چاہتی۔ وہ مجھے ڈراتے دھمکاتے ہیں۔ میں نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے اور میں اپنے شوہر کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں۔"
عدالت نے نو مسلم لڑکی کو دوبارہ دارالامان بھجواتے ہوئے کیس کی سماعت 23 جنوری تک ملتوی کر دی۔
ننکانہ صاحب کے حالات
دورانِ سماعت ننکانہ صاحب پولیس کے سب انسپکٹر جمیل احمد نے عدالت کے استفسار پر کہا کہ ننکانہ صاحب کے حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ وہاں امن و امان کی صورتِ حال خراب ہے۔
حکمران جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کے رکنِ پنجاب اسمبلی مہیندر پال سنگھ کہتے ہیں کہ لڑکی کے مذہب بدلنے اور شادی پر تو وہ کوئی بات نہیں کر سکتے۔ لیکن، حکومت نے ننکانہ صاحب کے حوالے سے سکھ برادری کے تمام تحفظات دور کر دیے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے مہیندر پال سنگھ نے بتایا کہ ننکانہ صاحب کے حالات کچھ دیر کے لیے خراب ہوئے تھے، لیکن اب مکمل امن ہے۔
ننکانہ صاحب میں ہوا کیا تھا؟
پاکستان کے صوبۂ پنجاب کے ضلع ننکانہ صاحب میں رواں ماہ پانچ جنوری کو مشتعل ہجوم نے گردوارہ ننکانہ صاحب کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا۔ احتجاج کی ویڈیو سوشل میڈیا پر تیزی سے پھیل گئی جس میں عمران چشتی نامی شخص کو سکھ مذہب کے خلاف نفرت انگیز تقریر کرتے اور ہجوم کے ساتھ سکھ برادری کو دھمکیاں دیتے دیکھا جا سکتا تھا۔
عمران چشتی یہ کہتے دکھائی دیے کہ "میں ننکانہ صاحب کا نام تبدیل کر دوں گا۔ ہم سکھوں کو ننکانہ صاحب سے نکال دیں گے۔"
تنازعہ کیا تھا؟
پولیس نے سکھ برادری کے خلاف تقریر کرنے والے شخص عمران چشتی کو واقعے کے ایک روز بعد گرفتار کر لیا تھا۔ عمران چشتی کے گھر والوں کا الزام ہے کہ سکھوں کے دباؤ پر انتظامیہ انہیں وقتاً فوقتاً تنگ کرتی رہتی ہے۔
عمران چشتی کے رشتہ داروں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ عمران پنجاب حکومت کے محکمۂ ماہی پروری میں ملازم ہیں اور سکھ لڑکی جگجیت کور نے عمران کے بھائی حسان سے نکاح کیا ہے۔
دوسری جانب سکھ برادری یہ الزام عائد کرتی ہے کہ جگجیت کو اغوا کر کے ان کا زبردستی نکاح کرایا گیا ہے۔
جگجیت کور کون ہے
جگجیت کور ضلع ننکانہ صاحب کے بچیکی روڈ، محلہ بالیلہ کی رہائشی ایک سکھ خاتون تھیں جو، اب ان کے بقول، اپنی مرضی سے مسلمان ہو چکی ہیں۔ جگجیت کی عمر تقریباً 20 برس ہے۔
وائس آف امریکہ نے جگجیت کور سے گفتگو کرنا چاہی، لیکن پولیس کے حفاظتی حصار کے باعث ان سے گفتگو ممکن نہیں ہو سکی۔ البتہ، یہ بات سامنے آئی ہے کہ گزشتہ سال نو اگست کو جگجیت کور نے لاہور میں اسلام پورہ کے علاقہ مجسٹریٹ کو درخواست دی تھی کہ انہیں کسی نے اغوا نہیں کیا اور وہ اپنی مرضی سے گھر چھوڑ کر آئی ہیں۔
مجسٹریٹ محمد فاروق نے نو اگست 2019 کو ہی جگجیت کور کا بیانِ حلفی ریکارڈ کیا۔ دستاویزات کے مطابق، جگجیت کور کسی کے بہلاوے یا ورغلانے پر اپنے گھر سے نہیں بھاگی، بلکہ وہ بالغ ہے اور اپنی مرضی سے آئی ہے۔
جگجیت کور نے اپنے بیان میں کہا کہ "میرے بھائی اور گھر والوں نے میرے اغوا کا جھوٹا مقدمہ درج کرایا ہے۔ میں نے محمد حسان سے شریعتِ محمدی کے تحت شادی کر لی ہے۔ میرے سابقہ مذہب کے لوگوں کو میرا مذہب تبدیل کرنا گوارہ نہیں ہے، جس پر وہ میری جان کے دشمن ہو گئے ہیں۔ وہ مجھے اور میرے خاوند کو مارنا چاہتے ہیں۔"
جگجیت کور سے عائشہ
دستاویزات کے مطابق، سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والی جگجیت کور نے گزشتہ سال 28 اگست کو اسلام قبول کیا تھا۔ جگجیت کور کی دستاویزات کے مطابق، ان کا نیا نام عائشہ بی بی ہے۔
جگجیت کور کا نکاح دارالعلوم جامعہ نعیمیہ (رجسٹرڈ) لاہور میں ہوا۔ جامعہ نعیمیہ کے ریکارڈ کے مطابق، جگجیت کور سے عائشہ بی بی بننے والی کا مذہب اسلام میں داخلے کا سرٹیفیکٹ نمبر 7518 ہے۔ عائشہ نے دو گواہوں کی موجودگی میں اسلام قبول کیا۔
جامعہ نعیمیہ کے مہتمم اعلٰی علامہ راغب نعیمی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ گزشتہ سال اگست میں جگجیت کور نامی خاتون اُن کے مدرسے میں آئی تھیں اور اسلام قبول کیا تھا۔
راغب نعیمی نے بتایا کہ اُن کا مدرسہ کسی کو بھی اسلام قبول کرانے کے بعد نکاح نہیں کراتا۔ اِس لیے اُن کے علم میں نہیں کہ عائشہ بی بی نے کب، کہاں اور کس کے ساتھ نکاح کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ "جگجیت کور نے خود کو بالغ ظاہر کیا اور ہمارے تمام قواعد و ضوابط پورے کیے۔ تصاویر، دو گواہ، اُن کے شناختی کارڈ کی فوٹو کاپیاں اور اپنا برتھ سرٹیفکیٹ ہمیں دکھایا، جس کے بعد انہوں نے اسلام قبول کیا اور ہم نے اُنہیں اسلام قبول کرنے کا سرٹیفکیٹ دے دیا۔"
عائشہ بی بی کی جانب سے مجسٹریٹ لاہور کو دی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ بھارتی اور امریکی میڈیا نے اُن کے اغوا اور زبردستی نکاح کے بارے میں غلط خبریں شائع کیں۔
وائس آف امریکہ نے ننکانہ صاحب کی صورتِ حال پر پاکستان سکھ گردوارہ پربھندک کمیٹی کے صدر سردار تارا سنگھ سے اُن کا مؤقف جاننے کی کوشش کی تو انہوں نے بات کرنے سے انکار کرتے ہوئے اپنا فون بند کر دیا۔
دوسری جانب بھارتی حکومت اور میڈیا میں ننکانہ صاحب کے واقعے کا ذکر آنے پر وزیرِ اعظم پاکستان عمران خان نے ٹوئٹر پر اپنے بیان میں کہا ہے کہ ننکانہ صاحب میں رونما ہونے والا واقعہ ان کی سوچ کی نفی کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ واقعے کے ذمّہ داروں کو پولیس اور عدلیہ سمیت حکومت سے کسی قسم کی رعایت یا تحفظ نہیں ملے گا۔