غصہ کسے نہیں آتا؟ اور اگر بات واقعی غصے دلانے والی ہو تو پھر لال بھبوکا ہونے کا جواز بھی پیدا ہوجاتا ہے۔ لیکن، کیا ہمارا معمولی باتوں پر ناراض ہوجانا اور اپنا غصہ دوسروں پر نکالنے کی عادت ہمیں قبل از وقت موت کے خطرے سے قریب کر رہی ہے؟ ایک نئی تحقیق بتاتی ہے کہ اگر آپ مرد ہیں تو اس سوال کا جواب ہاں میں ہے۔
تحقیق کے مطابق زیادہ غصہ کرنے والے مردوں میں کم غصہ کرنے والے مردوں کے مقابلے میں قبل از وقت موت کا خطرہ تقریبا دوگنا ہوسکتا ہے۔
جریدے 'سوشل سائنس اینڈ میڈیسن' کے نومبر کے شمارے میں شائع ہونے والی تحقیقی رپورٹ میں محققین نے لکھا ہے کہ ایسے سائنسی شواہد موجود ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ نفسیاتی عوامل مثلا غصہ اور علمی صلاحیتوں کا انسان کی صحت اور موت سے گہرا تعلق ہے۔
'آئیووا اسٹیٹ یونیورسٹی' سے تعلق رکھنے والی پروفیسر امیلیا کیراکر نے اپنے مطالعے میں موت کی پیش گوئی کے لیے مختلف عوامل کے بارے میں جانچ پڑتال کی ہے اور صرف غصے کو شرح اموات کے ساتھ منسلک پایا ہے۔
تحقیق کی سربراہ پروفیسر کیراکر کے بقول یہ مطالعہ کبھی کبھار غصہ ہونے کے بارے میں نہیں تھا بلکہ مطالعے میں شامل لوگ مسلسل ناراض رہتے تھے۔
انھوں نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ آپ کا دوپہر میں موڈ ٹھیک نہیں رہتا ہے یا پھر ایک سال تک کسی سے ناراض رہنا تو ٹھیک ہے۔ لیکن مطالعے میں شامل لوگوں کا غصہ عارضی نہیں تھا اور ان میں معمول سے بڑھ کر غصے کا رجحان پایا جاتا تھا۔
'آئیووا اسٹیٹ یونیورسٹی' میں شعبہ ہیومن ڈویلپمنٹ اینڈ فیملی سے تعلق رکھنے والی پروفیسر امیلیا کیراکر نے کہا کہ مسلسل غصہ، بلڈ پریشر اور دل کی دھڑکن کو بڑھاتا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دل پر دباؤ ڈالتا ہے۔
ان کے مطابق کچھ مطالعے ایسے بھی ہیں جن میں ظاہر ہوا تھا کہ غصے کو دبانے سے بلڈ پریشر اور دل کی بیماریوں کے خطرے میں اضافہ ہوتا ہے۔ خاص طور پر جب لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ انصاف نہیں کیا جارہا ہے۔
تو کیا صحیح جگہ پر غصہ کرنا جائز ہے؟
اس سوال کےجواب میں امیلیا کیراکر نے کہا کہ '"شاید"۔ ان کے بقول اگر کبھی کبھار ایسا کیا جاتا ہے تو یہ مناسب ہے لیکن غصہ بہت جلدی اتر جانا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے مطالعے میں شرکا کے غصے کی حد کی پیمائش نہیں کی گئی لیکن نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ غصہ ہونا فائدے سے زیادہ نقصان کا سودا ہے۔
محقق کیراکر نے اپنے مطالعے کے لیے 20 سے 40 برس کے 27,373 مردوں کے اعداد و شمار پر مبنی ایک 35 سالہ مطالعے 'پینل اسٹڈی آف انکم ڈائنا مکس' کی پیروی کی ہے۔
شرکا کے غصے کی سطح کو سالانہ بنیادوں پر ناپا گیا جس میں محقق کیراکر نے شرکا سے ایک آسان سوال پوچھا کہ کیا وہ آسانی سے غصہ ہوجاتے ہیں؟ شرکاء کی جانب سے اس کا جواب جتنی کثرت سے "ہاں" میں آیا تھا ان کے لیے موت کا خطرہ اتنا ہی بڑھا پایا گیا۔
اموات کی شرح پر نفسیاتی عوامل کے اثر و رسوخ پر اپنی تحقیق پیش کرتے ہوئے پروفیسر کیراکر نے بتایا کہ 25 فیصد حضرات نے خود کو زیادہ غصہ کرنے والا بتایا تھا اور ان مردوں میں کم غصہ کرنے والے 25 فیصد مردوں کے مقابلے میں موت کا خطرہ 1.57 گنا زیادہ تھا۔
اس تحقیق میں مردوں کی اوسط عمر 30 سال تھی لیکن زیادہ غصہ کرنے والے مردوں میں غصے کے اثرات کے باعث 35 برس بعد بھی موت کے خطرات میں اضافہ دیکھا گیا۔
پروفیسر امیلیا کہتی ہیں کہ اموات کو متاثر کرنے والے دیگر عوامل میں سے انسان کی شخصیت کی دیگر خصوصیات، مثلاً سوچنے سمجھنے کی اعلی صلاحیتوں کو اکثر ابتدائی موت کے خطرے سے بالاتر سمجھا جاتا ہے۔ لیکن مطالعے کے ایسے شرکا جو ان حفاظتی خصوصیات کے حامل تھے اور انھوں نے بھی یہ اعتراف کیا کہ وہ جلدی غصے میں آجاتے ہیں، تو ان کے لیے بھی موت کے خطرے میں اضافہ دیکھا گیا۔
انھوں نے بتایا کہ غصے پر جینیاتی اثرات کے حوالے سے بھی سائنسی شواہد پیش کیے گئے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے غصہ کرنے والوں کا غصہ دوسروں سے زیادہ خود انھیں تکلیف پہنچاتا ہے۔
اس سے قبل ایک اور تحقیق جو 'سرکولیشن 'نامی رسالے میں شائع ہوئی تھی اس میں لگ بھگ چار ہزار مرد اور خواتین کے اعداد و شمار کے تجزیے سے یہ بات سامنے آئی تھی کہ زیادہ غصہ اور دشمنی رکھنے والے مردوں میں دل کی بیماری 'آرٹیریل فیبریلیشن' یا دل کی بے ترتیب دھڑکن کا مرض لاحق ہونے کے خطرے میں اضافہ پایا گیا تھا۔