پاکستان کی سرکاری ایئر لائن پی آئی اے کی بڑھتی ہوئی مالی مشکلات کے باعث حکومت نے اس کی نجکاری کا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم بعض حلقے یہ سوال اُٹھا رہے ہیں کہ کیا نجکاری ہی وہ واحد حل ہے جو پی آئی اے کو مالی بحران سے نکال سکتی ہے؟
ماضی میں دنیا کی بہترین ایئر لائنز میں شمار ہونے والی پی آئی اے کی اکثر فلائٹس تاخیر یا منسوخی کا شکار ہیں جب کہ طیاروں میں فنی خرابی کی اطلاعات بھی آتی رہتی ہیں۔ نگراں حکومت کی کابینہ کے حالیہ اجلاس میں ادارے کی نجکاری کی منظوری دے دی گئی ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ پی آئی اے کی فروخت اب ناگزیر ہو چکی ہے کیوں کہ اس کے مجموعی نقصانات 713 ارب روپے تک جا پہنچے ہیں۔ 11 اکتوبر کو ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں پی آئی اے کی نجکاری کے لیے فنانشل ایڈوائزری کنسورشیم کی خدمات لینے کی منظوری دی گئی ہے۔
'پی آئی اے روزانہ 50 کروڑ روپے کا خسارہ کر رہی ہے'
وزیر نجکاری فواد حسن فواد نے کابینہ اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نقصان میں جانے والے سرکاری ادارے نہ صرف حکومت بلکہ عام شہریوں پر بھی اثرانداز ہوتے ہیں۔
اُن کے بقول نجکاری کے لیے ایک دن بھی ضائع ہونے سے بچ سکے تو ایسا کرنا چاہیے۔
فواد حسن فواد کا مزید کہنا تھا کہ پی آئی اے کو موجودہ واجبات اور اثاثوں کے ساتھ ہی ممکنہ خریداروں کو پیشکش کی جائے گی۔
انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ پی آئی اے کے 713 ارب روپوں کے خسارے میں سے 265 ارب روپے کے قرضوں پر حکومت نے گارنٹی دے رکھی ہے۔ 22 ارب کے قرضے وہ ہیں جو پی آئی اے نے اپنے اثاثے گروی رکھ کر حاصل کیے ہیں۔ 150 ارب روپے حکومت نے مختلف ادوار میں پی آئی اے کو دیے تاکہ ادارہ چلتا رہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ پی آئی اے کا 12.77 ارب روپے ماہانہ خسارہ ہے اور سالانہ یہ رقم 156 ارب روپے بنتی ہے۔
یوں پی آئی اے روز لگ بھگ 50 کروڑ روپے کا خسارہ کر رہی ہے اور اتنا بڑا خسارہ حکومت کے لیے اب قابلِ برداشت نہیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ نجکاری کے عمل کے دوران کسی ملازم کو ادارے سے نکالا نہیں جا رہا اور حکومت کو اندازہ ہے کہ جوبھی انویسٹر ادارے کو خریدے گا وہ یہاں کام کرنے والے بہت سے ملازمین کو برقرار رکھے گا۔
خاص طور پر پائلٹس، کیبن کریو، انجینئرز اور گروانڈ عملہ بھی انویسٹر رکھے گا اور جن ملازمین کو انویسٹر قبول نہیں کرے گا، حکومت ان ملازمین کی ملازمت انہی شرائط پر برقرار رکھے گی۔
لیکن ایوی ایشن انڈسٹری کے تجزیہ کاروں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کوئی چند ماہ یا چند برسوں کی کہانی نہیں بلکہ دہائیوں کی بدعنوانی اور اقربا پروری نے دنیا کی بہترین ایئرلائنز میں سے ایک کو موجودہ تاریک حال تک پہنچا دیا ہے۔
'پی آئی اے کی تباہ حالی دہائیوں کی نااہلی، بدانتظامی اور مداخلتوں کا نتیجہ ہے'
ایوی ایشن ایکسپرٹ طاہر عمران نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پی آئی اے موجودہ حالت کو ایک دن میں نہیں پہنچی بلکہ اس میں بدانتظامی برسوں سے ہوتی چلی آئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہاں جنرل ضیاء کی آمریت کے دور میں لیے گئے کچھ فیصلے ایسے تھے جس کے بعد سے اس کی تنزلی کا سفر شروع ہوا۔
اُن کے بقول اہل انتظامیہ کا فقدان، سول حکومتوں، فوج اور ایئرفورس کی پی آئی اے کے امور میں مسلسل مداخلت اس کی چند ایک وجوہات ہیں۔ انہوں نے یاد دلایا کہ آج سے 10 سال سے بھی کم عرصے قبل تک پی آئی اے وفاقی وزارتِ دفاع کے ماتحت تھی۔
طاہر عمران کہتے ہیں کہ ایک جانب دنیا کی بہترین ایئرلائن میں شمار ہونے والی ایمریٹس کی مینجمنٹ 25، 30 سال سے وہی ہے جس نے اسے قائم کیا تھا اور وہ مستقل مزاجی سے اس ایئرلائنز کے پلانز کو دیکھتی ہے۔ لیکن یہاں تو صورتِ حال بالکل مختلف ہے۔
اُن کے بقول ہر حکومت آ کر یہاں اپنے بندے تعینات کرتی ہے جو اپنا پلان بناتا ہے، پیسہ لگاتا ہے اور جب اس کے نتائج دیکھنے کا وقت آتا ہے تو نیا شخص یہاں ادارے کا سربراہ بنا دیا جاتا ہے۔
طاہر عمران کا کہنا ہے کہ پی آئی اے کی تباہی کی ذمے دار حکومت کی اوپن اسکائی پالیسی بھی رہی جس کے تحت پاکستان میں ہوا بازی کے شعبے میں خلیجی ممالک کو فوقیت ملتی رہی۔
ان کے خیال میں پاکستان کے جتنے بھی ایئر سروس ایگریمنٹس ہیں وہ پاکستان یا قومی ایئرلائن کے حق میں نہیں بلکہ ان معاہدوں سے دیگر ممالک بالخصوص خلیجی ممالک کو فائدہ ہوا۔
اوپن اسکائی پالیسی کیا تھی؟
پاکستان میں اوپن اسکائی پالیسی کا آغاز 90 کی دہائی میں کیا گیا جس کے تحت بین الاقوامی ایئرلائنز بالخصوص خلیجی ممالک، سری لنکا اور ترکیہ کی ایئرلائنز کو پاکستان میں اپنا آپریشن کئی ایئرپورٹس بشمول چھوٹے ایئرپورٹس تک بڑھانے کی اجازت دے دی گئی۔
ماہرین کے مطابق اس سے پی آئی اے کا بزنس کم ہونے لگا جب کہ غیر ملکی ایئرلائنز بالخصوص متحدہ عرب امارت کی ایئرلائنز کو بے حد فائدہ پہنچا۔
پی آئی اے کو خسارے سے نکالنے کے حکومتی منصوبے کیوں کامیاب نہیں ہو پائے؟
طاہر عمران کے مطابق پی آئی اے کو خسارے سے نکالنے کے لیے کوئی سنجیدہ کوششیں یا منصوبہ بندی کی ہی نہیں گئی۔
اُن کے بقول اس بارے میں پہلی سنجیدہ کوشش نواز شریف کی گزشتہ حکومت میں نظر تو آئی لیکن اس میں سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) بنی رہی۔
طاہر عمران کہتے ہیں کہ خود نواز شریف دور کی اس کوشش کی پارٹی کے اندر سے بھی شدید مخالفت کی گئی۔ اسی طرح پیپلز پارٹی کے دور میں ایسی ہی کمزور کوششوں کی سب سے بڑی مخالفت مسلم لیگ (ن) نے کی۔
طاہر عمران کہتے ہیں کہ سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں پی آئی اے انتظامیہ بوئنگ ٹرپل سیون طیارے امریکہ سے نہیں خریدنا چاہتی تھی کیوں کہ پی آئی اے کو نئے جہاز خریدنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔
کیا پاکستان میں دیگر ایئر لائنز منافع بخش کاروبار کر رہی ہیں؟
طاہر عمران کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی ائیرلائن منافع بخش نہیں ہے اور اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ملک میں ایوی ایشن کا کاروبار منافع کی جانب راغب ہی نہیں کرتا۔
اُن کے بقول یہاں تمام روٹس پہلے سے سولڈ آوٹ ہیں اور یہاں خلیجی ممالک کی ایئرلائنز کی اجارہ داری ہے۔
طاہر عمران کے بقول پاکستانی ایئرلائنز حج اور عمرہ کے سیزن میں ہی منافع کماتی ہیں جب کہ یہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے علاوہ کہیں پرواز نہیں کرتیں۔
اُن کے بقول کچھ نجی ایئرلائنز ڈومیسٹک روٹس پر اچھا منافع کما رہی ہیں، لیکن اگر یہ بین الاقوامی روٹس پر پروازیں شروع کریں گی تو لامحالہ انہیں بھی نقصان کا ہی سامنا ہو گا۔
کیا پی آئی اے کے مسائل کا حل اب نجکاری ہی بچا ہے؟
طاہر عمران کے نزدیک پی آئی اے کے مسائل کا اب بھی آخری حل نجکاری نہیں ہے بلکہ یہ ایک مشکل حل ہے۔
اُن کے بقول یہ وہ کمبل ہے جسے نہ چھوڑا جا سکتا ہے اور نہ لیا جا سکتا ہے۔
طاہر عمران کہتے ہیں کہ کسی بھی سرمایہ کار کے لیے پاکستان میں اتنی بڑی سرمایہ کاری کرنا بھی کوئی آسان فیصلہ نہیں ہو گا۔ کیوں کہ یہاں سرمایہ کاری کا ماحول موجود نہیں، سیاسی عدم استحکام بہت زیاد ہے جب کہ کرنسی اور مارکیٹ بھی بہت غیر مستحکم ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان کی حکومت اس تاثر کو رد کرتی رہی ہے۔ حکومت کا یہ مؤقف رہا ہے کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کے اب بھی کئی مواقع موجود ہیں۔
تو پھر قرضوں میں ڈوبی پی آئی اے کی بحالی کے لیے حل ہے کیا؟
طاہر عمران کہتے ہیں کہ پی آئی اے کو پھر سے بحال کرنے کے لیے بنیادی طور پر دو چیزیں کرنا ضروری ہیں۔ نمبر ایک تو یہ کہ جو بھی اس ایئرلائن کو چلائے چاہے حکومت ہو یا سرمایہ کار،،، اسے فری ہینڈ دینا ہو گا۔
اُن کے بقول اہل لوگوں کی ٹیم تعینات کرنا ہو گی جو وزرا، مشیران، فوج اور بیوروکریسی کی مداخلت اور دباؤ کے بغیر کام کرے۔
ان کے خیال میں ایسا کرنے سے دو سے تین سال ہی میں پی آئی اے کے حالات بدلے جا سکتے ہیں۔ ورنہ نجکاری یا بیل آوٹ پیکجز دے کر بھی پی آئی اے میں سدھار پیدا نہیں کیا جاسکتا۔
اُن کے بقول پاکستان کو اپنے ایئر سروس ایگریمنٹس میں بھی تبدیلیاں لانا ہوں گی۔ کیوں کہ بین الاقوامی ائیرلائنز کو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ پاکستان میں جس قدر چاہیں پروازیں چلائیں اور آپ کی اپنی قومی پرواز کو کھل کر بزنس کرنے کی اجازت ہی نہ ہو۔
'پی آئی اے کی مالی اور انتظامی مدد کی جائے تو بہتری ممکن ہے'
پی آئی اے آفیسر ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری صفدر انجم کا بھی خیال ہے کہ بعض عناصر اپنے مفادات کی خاطر جان بوجھ کر پی آئی اے کا تشخص خراب کر رہے ہیں.
ان کا کہنا ہے کہ اس وقت جو جہازوں کا فلیٹ چل رہا ہے اس سے بھی پی آئی اے کو 22 ارب روپے کے لگ بھگ منافع مل رہا ہے۔ اور اس کے اخراجات 20 ارب روپے کے لگ بھگ اخراجات ہیں۔
لیکن اصل مسئلہ ان قرضوں کا ہے جو پی آئی اے پر واجب الادا ہے جو ماہانہ ان کے مطابق کوئی آٹھ ارب روپے کی قسطیں بنتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت اب بھی پی آئی اے کی مالی مدد اور انتظامی طور پر اہل افراد تعینات کرے جو کسی دباؤ کے بغیر کام کرسکیں تو یہ قومی اثاثہ تباہی اور کوڑیوں کے مول بکنے سے بچ سکتا ہے۔
صفدر انجم کا خیال ہے کہ ایسے عناصر جو پی آئی اے کی نجکاری کرنا چاہتے ہیں ان کی اصل نظر پی آئی اے کے لینڈنگ رائٹس پر ہے۔
اُن کے بقول قومی ایئرلائن کو نیویارک، لندن، یورپ کے مختلف شہروں سمیت مشرق بعید کے ممالک، افریقہ اور آسٹریلیا تک میں پروازیں اتارنے کی اجازت حاصل ہے۔ لیکن مختصر فلیٹ ہونے کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہو پارہا اور یہ حقوق ہی ان کے مطابق اربوں ڈالرز کے ہیں۔
انہوں نے بھی اس بات کی تائید کی کہ قومی ایئرلائن کی اصل تباہی کی ذمہ دار اوپن اسکائی جیسی پالیسیاں اور نااہل انتظامیہ ہے۔
اوپن اسکائی پالیسی کی بدولت دنیا کی ایئرلائنز پاکستانی مسافر اٹھارہی ہیں لیکن پاکستان کی اپنی ہی ایئرلائن خالی ہاتھ ہوتی ہے۔ اسی طرح یہاں گزشتہ کئی عرصے سے لازمی سروس ایکٹ نافذ ہے، یونین پر ایک طرح سے مکمل طور پر پابندی ہے اور کسی قسم کی مزاحمت بھی نہیں ہوئی۔
صفدر انجم نے اصرار کیا کہ پی آئی اے کی نجکاری ہی اس کے مسائل کا حل نہیں بلکہ پی آئی اے اب بھی ماضی کی طرح دوبارہ ترقی کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ نگراں حکومت کے پاس پی آئی اے کو پرائیویٹائز کرنے کے علاوہ کوئی اور کام ہی نہیں۔
'نجکاری کے ذریعے ایوی ایشن انڈسٹری میں سرمایہ کاری کی راہیں کھلیں گی'
تاہم نگراں وفاقی وزیر برائے نجکاری فواد حسن فواد کا کہنا ہے کہ پی آئی اے کی نجکاری کا فیصلہ منتخب حکومتوں نے کیا تھا۔ لیکن ملکی معاشی حالات کی وجہ سے اب اس میں تیزی لائی جارہی ہے۔
انہوں نے اس سے اتفاق کیا کہ نجکاری کے معاملات میں ان معاہدوں پر عمل درآمد کے حوالے سے حکومت کی کارکردگی اچھی نہیں رہی۔
اُن کے بقول ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ہمارا کام صرف اداروں کی نجکاری کرنا ہی نہیں بلکہ اپنے شہریوں کے حقوق کا تحفظ بھی ہے۔
فورم