نور زاہد
داعش کی عسکریت پسندی اور بھرتی کے معاملے پر تاجک افغان سرحد پر بڑھتی ہوئی کشیدگی کے بعد، افغان حکام نے جمعرات کو ایک وڈیو جاری کیا ہے جس میں ایک تاجک شہری کو یہ کہتے ہوئے دکھایا گیا ہے کہ وہ داعش کے ہمراہ لڑنے کی غرض سے افغانستان آئے ہیں۔
یہ شخص، جن کی شناخت حکام نے نصرت اللہ کے نام سے کی ہے، کہتا ہے کہ وہ تاجک شہری ہے جن کا تعلق دوشنبہ سے ہے؛ اور اُنھوں نے حال ہی میں داعش میں شمولیت اختیار کی ہے۔ افغان اہل کاروں کا کہنا ہے کہ اُنھیں افغانستان کے صوبہ شمالی تخار سے گرفتار کیا گیا تھا۔ ’وائس آف امریکہ‘ اِس وڈیو کے اصل ہونے یا اُس کے مندرجات کی تصدیق نہیں کر پایا۔
اِس وڈیو میں، جسے افغانستان کی ’نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی‘ نے جاری کیا ہے، نصرت اللہ نے کہا ہے کہ ’میں تخار پہنچا جہاں قومی سلامتی کے سربراہ نے مجھے گرفتار کیا‘۔
نصرت اللہ نے کہا کہ داعش نے سماجی میڈیا کی مدد سے اُنھیں بھرتی کیا تھا۔
وڈیو میں وہ کہتا کہ، ’میں ایک سال دو ماہ تک روس میں تھا، جہاں میں کام کیا کرتا تھا۔ اور انٹرنیٹ کے ذریعے مجھے افغانستان میں سرگرم عمل داعش کے سربراہ کا پتا چلا، جنھوں نے مجھے جہاد کی دعوت دی، جسے میں نے قبول کیا‘۔
روسی حکام نے کہا ہے کہ اُنھیں اس بات پر سخت تشویش ہے کہ سابق سویت جمہوریاؤں میں داعش کے لیے بھرتی کا کام جاری ہے۔
داعش لوگوں کی ٹولیوں میں بھرتی کرتا ہے، جس میں نوجوانوں کے لیے نہ صرف کشش والے پیکیج ہوتے ہیں، بلکہ بھرتی کردہ عسکریت پسندوں کو سفر کی سہولتیں بھی فراہم کی جاتی ہیں۔
نصرت اللہ کے بقول، ’اُنھوں نے (أفغانستان میں داعش کے سربراہ نے) مجھے 20000 روسی روبیلس کی رقم بھجوائی اور میں آذربائیجان سے ایران پہنچا‘۔
اُنھوں نے مزید بتایا کہ ’اُنھوں نے مجھے جہاز پر کابل سفر کے لیے کہا‘۔
تاجک شدت پسند نے بتایا کہ کابل آنے پر لوگ ملے جو اُنھیں شمالی قندوز لے گئے، جہاں سے وہ ہمسایہ صوبہٴ تخار پہنچے۔
انٹیلی جنس رپورٹس کے مطابق، ملک میں اس وقت داعش کے تقریباً 2000 سے 3000 شدت پسند موجود ہیں۔
شمالی صوبہٴ بغلان میں افغان پولیس حکام نے بتایا ہے کہ دو غیر ملکی شدت پسند، جن میں ایک تاجک شہری شامل ہے، جمعرات کو افغان سلامتی افواج کے ساتھ لڑائی میں مارا گیا۔ یہ خبر افغان پجواک نیوز نے جاری کی ہے۔
بتایا گیا ہے کہ داعش سے تعلق رکھنے والے متعدد وسط ایشیائی شدت پسند پاکستان سے اُس وقت بھاگ نکلے جب افغان سرحد پر انتہا پسندوں کے خلاف فوجی کارروائی شروع کی گئی۔
زابل کے سکیورٹی ذرائع، جنھوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ، ’علاقے (صوبہ زابل کے جنوب میں) داعش کے شدت پسند، زیادہ تر وسط ایشیائی شہری ہیں، جو اپنے اہل خانہ کے ہمراہ ایک برس قبل ڈرانڈ لائن کی دوسری پار، پاکستان پہنچے تھے‘۔
زابل متحارب طالبان گروہوں اور داعش کے شدت پسندوں کے مابین جنگ و جدل کا میدان رہا ہے۔
گذشتہ ماہ ’بی بی سی‘ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے، افغان قومی سلامتی کے مشیر، محمد حنیف اتمار نے کہا کہ افغانستان کے مشرقی علاقوں مین 80 سے 90 فی صد لڑاکا غیر افغان ہیں، جب کہ اُن کی اکثریت ڈرانڈ لائن میں پاکستان کی طرف اپنے محفوظ پناہ گاہوں سے اِس طرف وارد ہوئے ہیں۔
اگست میں داعش سے منسلک سماجی میڈیا کے اکاؤنٹ سے دو تصاویر ٹویٹ کی گئی تھیں، جن میں مبینہ طور پر پاکستان کے شمال مغربی قبائلی علاقوں میں تربیتی کیمپ دکھائے گئے تھے۔
داعش کے ازبک جنگجوؤں نے اتوار کے روز زابل میں سات افغان سولینز کو ہلاک کر دیا تھا، جنھیں اُنھوں نے ایک ماہ قبل ہمسایہ صوبہٴ غزنی سے اغوا کیا تھا۔
اِن میں سے زیادہ تر شدت پسند وسط ایشیائی ہیں، جن میں ازبک، تاجک اور چیچن ہیں، جو طالبان کےشانہ بشانہ لڑ چکے ہیں، اور جنھوں نے کچھ عرصے کے لیے گذشتہ ستمبر میں قندوز کے شمالی شہر کو فتح کر لیا تھا۔
’آر آئی اے‘ نیوز ایجنسی نے گذشتہ ماہ، روس کے سکیورٹی کے وفاقی ادارے کے سربراہ، الیگزینڈر بارٹنیکوف کے حوالے سے خبر دی تھی کہ افغانستان میں موجود داعش کے شدت پسند وسطی ایشیا کی سلامتی کے لیے بڑھتا ہوا خطرہ ہیں۔
بارٹنیکوف کے بقول، ’افغانستان میں کشیدگی میں اضافہ شدید تشویش کا باعث ہے‘۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ، ’کئی ایک شدت پسند گروہ طالبان کا جُزو ہیں، جو ملک کی شمالی سرحدوں کے ساتھ ساتھ موجود ہیں‘۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے گذشتہ ماہ تمام پانچوں وسط ایشیائی جمہوریاؤں کا دورہ کیا تھا، جہاں زیر غور آنے والے معاملات میں سکیورٹی کے امور خاص اہمیت کے حامل تھے۔