رسائی کے لنکس

کیا آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت کی تقریر وزیر اعظم مودی کے لیے کوئی پیغام ہے؟


  • بھارت کی حکمراں جماعت اور آر ایس ایس کے درمیان مبینہ اختلافات کی خبریں سامنے آ رہی ہیں۔
  • وزیر اعظم نریند رمودی کے کام کرنے کے طریقے پر بی جے پی اور آر ایس ایس کے اندر عدم اطمینان کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔
  • حقیقی خادم کسی کو تکلیف پہنچائے بغیر کام میں یقین رکھتا ہے۔ اس میں ایسا تکبر نہیں ہوتا کہ میں نے یہ کیا، وہ کیا: موہن بھاگوت
  • بھاگوت کے بیان کو بی جے پی اور آر ایس ایس کے درمیان مبینہ بڑھتے درپردہ اختلافات کے تناظر میں بھی دیکھا جا رہا ہے۔

بھارت کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور اس کی نظریاتی سرپرست تنظیم ’راشٹریہ سویم سیوک سنگھ‘ کے درمیان مبینہ اختلافات کا معاملہ بھارت میں موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔

آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے انتخابی نتائج آنے کے بعد پیر کو ناگپور میں آر ایس ایس کارکنوں سے ایک خطاب میں کہا تھا کہ ’حقیقی سیوک‘(خادم) کے اندر غرور نہیں ہوتا۔ انھوں نے انتخابی مہم کے دوران بعض رہنماؤں کی جانب سے ناشائستہ لب و لہجہ اختیار کرنے پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ "حقیقی خادم کسی کو تکلیف پہنچائے بغیر کام میں یقین رکھتا ہے۔ اس میں ایسا تکبر نہیں ہوتا کہ میں نے یہ کیا، وہ کیا۔ وہ تہذیب و شائستگی کے دائرے میں رہ کر کام کرتا ہے۔ جس میں یہ خوبیاں ہوں وہی شخص خود کو سچا خادم کہلانے کا حق رکھتا ہے۔"

یاد رہے کہ وزیر اعظم نریند رمودی کے کام کرنے کے طریقے پر بی جے پی اور آر ایس ایس کے اندر عدم اطمینان کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔

اپنے خطاب کے دوران انھوں نے انتخابی مہم کے سلسلے میں بھی اپنا مؤقف رکھا اور کہا کہ الیکشن کے دوران تہذیب و شائستگی کا دامن چھوڑ دیا گیا۔

ان کے بقول انتخابی عمل جمہوریت کا حصہ ہے جس میں دو فریق ہوتے ہیں۔ الیکشن ایک دوسرے سے مقابلہ ہے اور آگے نکل جانے کی کوشش ہے۔ لیکن اس میں دشمنی نہیں ہونی چاہیے۔ اسی طرح پارلیمان میں بھی حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف دو فریق ہوتے ہیں۔

موہن بھاگوت کے اس بیان پر نئی دہلی کے میڈیا میں کافی گفتگو ہو رہی ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ان کا اشارہ وزیرِ اعظم نریندر مودی کی طرف ہے۔ کیوں کہ جب 2014 میں جیت کر وہ وزیرِ اعظم بنے تھے تو ان کا کہنا تھا کہ ’وہ پردھان منتری نہیں بلکہ پردھان سیوک ہیں۔‘

بھاگوت کے بیان کو بی جے پی اور آر ایس ایس کے درمیان مبینہ بڑھتے درپردہ اختلافات کے تناظر میں بھی دیکھا جا رہا ہے۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ بی جے پی اور آر ایس ایس کے درمیان سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔

ایسا سمجھا جا رہا ہے کہ موجودہ مخلوط حکومت کے سامنے جو چیلنجز ہیں ان میں ایک چیلنج یہ بھی ہے کہ وزیر اعظم مودی بی جے پی اور آر ایس ایس کے درمیان ہم آہنگی کیسے قائم کرتے ہیں۔

یاد رہے کہ بی جے پی کے صدر جے پی نڈا نے انتخابی مہم کے دوران کہا تھا کہ بی جے پی اب کافی بڑی پارٹی بن گئی ہے۔ وہ کافی اہل ہے اور اپنے معاملات خود سنبھالتی ہے۔ وہ ایک سیاسی پارٹی ہے اور آر ایس ایس ایک نظریاتی فرنٹ ہے۔ دونوں کے کام الگ الگ ہیں۔

انھوں نے دہلی کے اخبار ’انڈین ایکسپریس‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ اٹل بہاری واجپائی کے زمانے میں بی جے پی بہت کمزور تھی لیکن اب بہت مضبوط ہے۔

کیا بھارتی ووٹرز نے بی جے پی کی ہندو قوم پرستی کی سیاست کو مسترد کر دیا ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:40 0:00

مبصرین نے اس وقت بھی ان کے اس بیان کو بی جے پی اور آر ایس ایس کے درمیان بڑھتے اختلافات کی شکل میں دیکھنے کی کوشش کی تھی۔

اخبار ’ہندوستان‘ کے ایڈیٹر اور سینئر صحافی پرتاپ سوم ونشی کا خیال ہے کہ ابھی اس قسم کے بیانات اور آئیں گے۔ چوں کہ بی جے پی کو انتخابات میں اکثریت نہیں ملی تو اب بی جے پی اور آر ایس ایس کے رہنما ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرائیں گے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ بی جے پی کے ایودھیا کے امیدوار نے کہا تھا کہ اگر بی جے پی کو 400 سیٹیں مل جاتی ہیں تو آئین بدل دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ جے پی نڈا نے آر ایس ایس کے بارے میں بیان دیا تھا۔ ان سب پر سوالات اٹھائے جائیں گے۔

کیا بی جے پی آر ایس ایس کو نظرانداز کر رہی ہے؟

سینئر تجزیہ کار رویند رکمار کہتے ہیں کہ شکست سے بی جے پی اور آر ایس ایس کو جو چوٹ پہنچی ہے ان کا یہ بیان اس کی ٹیس کو کم کرنے کی کوشش ہے۔ اسی کے ساتھ موہن بھاگوت وزیرِ اعظم مودی کو یہ پیغام دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ’بڑا بڑا ہی ہوتا ہے۔‘

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ آر ایس ایس اگرچہ مودی کے کام کرنے کے طریقۂ کار سے مطمئن نہیں ہے۔ لیکن موہن بھاگوت کو مودی سے یہ کہنے کی جرأت نہیں ہے کہ آپ نے جو غلطیاں کی ہیں اس کی وجہ سے شکست ہوئی ہے۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ انھوں نے جو کچھ کہا ہے اس کا اشارہ مودی کی طرف ہی ہے۔

وہ موہن بھاگوت کے بیان کو ’کورس کرکشن‘ کہہ رہے ہیں۔ یعنی بقول ان کے نریندر مودی سے انتخابی مہم کے دوران جو غلطیاں ہوئی ہیں ان کو ٹھیک کرنے کی یہ ایک کوشش ہے۔

پرتاپ سوم ونشی بھی کچھ اسی قسم کے مؤقف کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں انتخابی مہم کے دوران بی جے پی کی جانب سے آر ایس ایس کو وہ توجہ نہیں ملی جو ملنی چاہیے تھی اسی لیے ایسی باتیں اٹھ رہی ہیں اور اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بی جے پی، آر ایس ایس کو نظرانداز نہیں کر پائے گی۔

پولنگ کے دوران کم ٹرن آؤٹ کے حوالے سے لوگوں کا خیال تھا کہ آر ایس ایس کے ورکرز نے اس الیکشن میں وہ دلچسپی نہیں دکھائی جو پہلے دکھاتے رہے ہیں اور بی جے پی کی کم سیٹیں آنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔

لیکن پرتاپ سوم ونشی کے خیال میں ایسا نہیں ہے۔ آر ایس ایس کے ورکرز نے پوری دلچسپی لی تھی۔ لیکن بی جے پی کی کم سیٹیں آنے کی دوسری وجوہات رہی ہیں۔ ان کے مطابق اگر آر ایس ایس کارکنوں نے دلچسپی نہیں لی تو مدھیہ پردیش کی تمام 32 سیٹوں پر بی جے پی کو کامیابی کیسے مل گئی۔

رویندر کمار کہتے ہیں کہ مودی کے کام کرنے کے طریقے سے بی جے پی کے اندر بھی بہت سے لوگ خوش نہیں ہیں اور آر ایس ایس میں بھی نہیں ہیں۔

بی جے پی اور آر ایس ایس کے درمیان اختلافات کا اشارہ آر ایس ایس کے انگریزی ترجمان ’آرگنائزر‘ سے ملتا ہے۔ اس کے تازہ شمارے میں لکھا گیا ہے کہ بی جے پی کے رہنماؤں اور کارکنوں نے انتخابات میں مدد کے لیے آر ایس ایس سے رابطہ قائم نہیں کیا جس کی وجہ سے خلاف توقع نتائج آئے ہیں۔

ترجمان کے مطابق بی جے پی کے رہنماؤں اور کارکنوں میں ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی تھی۔ وہ سوشل میڈیا پر سرگرم رہے، زمین پر نہیں اترے۔

یہ مضمون آر ایس ایس کے ایک فل ٹائم ممبر رتن شاردا نے لکھا ہے۔ ان کے مطابق بی جے پی کے رہنما جھوٹی انا کو ہی حقیقی سیاست سمجھتے ہیں۔ ان کے مطابق آر ایس ایس، بی جے پی کی فیلڈ فورس نہیں ہے۔ اس کے اپنے کارکن ہیں جن پر انتخابی مہم چلانے اور عوام تک پہنچنے کی ذمے داری ہے۔

انھوں نے شکست کے لیے بی جے پی کو ذمہ دار ٹھہرایا اور کہا کہ انتخابی نتائج نے بی جے پی کارکنوں کی ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کو بے نقاب کر دیا۔ وہ اس خوش فہمی میں رہے کہ مودی کے نام پر جیت جائیں گے۔ انھوں نے عوام میں جا کر ان کی باتیں نہیں سنیں۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ سوشل میڈیا اور سیلفی میں یقین رکھنے والے نئی نسل کے کارکنوں کی سرگرمیوں نے بی جے پی کے امکانات پر منفی اثر ڈالا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

فورم

XS
SM
MD
LG