رسائی کے لنکس

لانگ مارچ کا دوبارہ آغاز: کیا پی ٹی آئی خیبرپختونخوا ایک پیج پر نہیں ہے؟


پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) نے جمعرات سے ایک بار پھر اسلام آباد کی جانب مارچ دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس حوالے سے پنجاب کے شہر وزیرِ آباد جب کہ خیبرپختونخوا سے بھی قافلوں کو اسلام آباد کی جانب مارچ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

تین نومبر کو وزیرِ آباد میں عمران خان کے کنٹینر پر ہونے والی فائرنگ کے بعد پی ٹی آئی کا مارچ کچھ روز کے لیے روک دیا گیا تھا، تاہم اب جمعرات کو وزیرِ آباد سے ہی یہ مارچ شروع ہو گا جس کی قیادت شاہ محمود قریشی کریں گے جب کہ عمران خان ویڈیو لنک پر ہر روز مارچ کے شرکا سے خطاب کریں گے۔

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ عمران خان کے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے پر جہاں پارٹی کے اندر کئی رہنما کھل کر اس کی حمایت کر رہے ہیں تو وہیں پی ٹی آئی خیبرپختونخوا کے بعض رہنما لانگ مارچ اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے گومگو کی کیفیت سے دوچار ہیں۔

پی ٹی آئی خیبرپختونخوا کے رہنما اور سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے بھی ایک بیان میں خیبرپختونخوا سے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کے انتظامات سے متعلق لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔ گو کہ پارٹی کے کچھ رہنما مردان اور صوابی سے اسلام آباد کی جانب روانہ ہو چکے ہیں تو دوسری جانب سابق وزیرِ اعلٰی پرویز خٹک اور وزیرِ اعلٰی محمود خان کے علاقوں سے پارٹی کارکنوں کی روانگی کے حوالے سے کوئی واضح ہدایات سامنے نہیں آئیں۔

'پی ٹی آئی کے کچھ لوگ اسٹیبلشمنٹ سے تعلق خراب نہیں کرنا چاہتے'

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تحریکِ انصاف خیبرپختونخوا کے رہنماؤں کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اُس طرح کے بیانات سامنے نہیں آ رہے جس نوعیت کے بیانات پی ٹی آئی پنجاب اور سندھ کے رہنما دے رہے ہیں۔

سینئر صحافی شاہد حمید کہتے ہیں کہ پرویز خٹک منجھے ہوئے سیاسی کارکن ہیں اور وہ کسی بھی قیمت پر ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات کو خراب نہیں کرنا چاہیں گے۔

شاہد حمید کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی گزشتہ 10 برس سے خیبرپختونخوا میں حکومت کر رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ پارٹی کے بعض رہنما کچھ مصلحتوں کے باعث خاموش ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے شاہد حمید کا کہنا تھا کہ اسد قیصر نے اپنی حالیہ پریس کانفرنس میں کور کمانڈر پشاور کی رہائش گاہ کے سامنے احتجاج سے مکمل لا تعلقی کا اظہار کیا تھا۔

خیال رہے کہ عمران خان پر حملے کے بعد کور کمانڈر پشاور کی رہائش گاہ کے باہر بھی پی ٹی آئی کے کارکن جمع ہو گئے تھے۔

خیبرپختونخوا کے وزیرِ اعلٰی کے مشیر بیرسٹر محمد علی سیف نے بتایا کہ پاکستان تحریک انصاف کسی بھی طور پر فوج کے خلاف نہیں ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ سربراہ تحریکِ انصاف کا صرف یہ مطالبہ ہے کہ اُن کی ایف آئی آر میں نامزد فوجی افسر کو بھی شامل تفتیش کیا جائے۔

بیرسٹر سیف اس تاثر کو بھی رد کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی خیبرپختونخوا اور دیگر پارٹی رہنماؤں کے بیانات میں تضاد ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی خیبرپختونخوا نے بھی عمران خان سے اظہارِ یکجہتی کے لیے بیانات دیے ہیں، لیکن عمران خان اور اُن کے قریبی رفقا کے بیانات کو میڈیا میں جگہ ملتی رہی ہے، اور خیبرپختونخوا کے پارٹی رہنماؤں کے بیانات کو زیادہ کوریج نہیں ملی۔

اُن کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی خیبرپختونخوا عمران خان کی قیادت میں متحد ہے۔

'کچھ پی ٹی آئی رہنما لانگ مارچ کی طوالت سے مایوس ہیں'

تجزیہ کار عرفان خان کہتے ہیں کہ لانگ مارچ کو طول دینے کی وجہ سے پی ٹی آئی کے بعض رہنما اور کارکن مایوس نظر آتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ عمران خان نے ہر رُکن اسمبلی کو چار، چار ہزار افراد اسلام آباد لانے کی ہدایت کر رکھی ہے۔

اُن کے بقول ایک دن کے لیے تو لوگ احتجاج میں شریک ہونے کے لیے تیار ہوتے ہیں، لیکن مسلسل کئی روز تک لوگوں کو سڑکوں پر رکھنا بلاشبہ ایک بڑا چیلنج ہے۔




فوج کے حق اور عمران خان کی مخالفت میں جلسے جلوس

دوسری طرف خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں پاکستانی فوج کے حق اور پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کے خلاف استحکام پاکستان اور دیگر نعروں پر جلسوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

ان جلسوں کا انعقاد مختلف مذہبی جماعتوں کے علاوہ تاجروں اور کاروباری تنظیموں سے منسلک وہ لوگ بھی کر رہے ہیں جو پہلے عمران خان حکومت کی حمایت کر رہے تھے ۔

انہی مذہبی جماعتوں اور کاروباری تنظیموں نے 2018 اور 2020 کے درمیان پشتونوں کو درپیش سیکیورٹی سیاسی اور معاشی مسائل کی نام پر بنائے گئی تنظیم پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے خلاف بھی اسی قسم کے جلسوں اور جلوسوں کا انعقاد کیا تھا۔

XS
SM
MD
LG