رسائی کے لنکس

ملک ریاض کا بیان: کیا پراپرٹی ٹائیکون پر عمران خان کا 'وعدہ معاف' گواہ بننے کا دباؤ ہے؟


  • ملک ریاض کا دعویٰ ہے کہ اُن پر ایک سال سے سمجھوتہ کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔
  • پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کا دعویٰ ہے کہ ملک ریاض پر حکومت اور ریاستی اداروں کی طرف سے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔
  • اپنی بیمار حالت اور پریشانی کے باوجود اللہ کی مدد سے اس مصیبت کا سامنا کرنے کے لیے ثابت قدم ہوں۔ ملک ریاض
  • ملک ریاض پر کس ادارے یا شخص کی طرف سے دباؤ ہے اس بارے میں انہوں نے اپنے پیغام میں کوئی اشارہ نہیں دیا۔
  • ملک ریاض کے خلاف ڈی ایچ اے اور بحریہ ٹاؤن کے اشتراک سے بننے والے بعض منصوبوں پر رقم کا تنازع بھی موجود ہے: سینئر صحافی اعزاز سید

اسلام آباد -- بحریہ ٹاؤن کے مالک اور پاکستان کے بڑے پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کا ایک بیان سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے جس میں وہ کسی 'دباؤ' میں نہ آنے کی بات کر رہے ہیں۔ بعض حلقوں کا دعویٰ ہے کہ ملک ریاض پر عمران خان کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے کا دباؤ ہے جب کہ بعض مبصرہن کہتے ہیں کہ اُنہیں مختلف معاملات پر قانونی چارہ جوئی کا سامنا ہے۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارم 'ایکس' (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک بیان میں ملک ریاض کا کہنا تھا کہ "کبھی بھی کسی کو اجازت نہیں دوں گا کہ وہ مجھے سیاسی مقاصد کے لیے پیادے کے طور پر استعمال کرے۔ ایک سال سے زیادہ عرصے سے مجھ پر سمجھوتہ کرنے کے لیے بہت دباؤ ہے۔"

ملک ریاض کا نام اگرچہ بہت سے کیسز میں سامنے آیا ہے۔ لیکن 190 ملین پاؤنڈ اور القادر ٹرسٹ کا کیس بھی ہے جس میں ملک ریاض اور ان کے بیٹے علی ریاض کو اشتہاری قرار دیا جا چکا ہے۔ ان کی جائیداد ضبطی کے لیے عدالتی احکامات جاری کیے جا چکے ہیں۔

پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کا دعویٰ ہے کہ ملک ریاض پر حکومت اور ریاستی اداروں کی طرف سے دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ عمران خان کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن جائیں۔

یہ صورتِ حال ایک ایسے وقت میں سامنے آ رہی ہے جب 190 ملین پاؤنڈ کیس میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف کیس میں مختلف گواہان کے بیانات جاری ہیں۔ امکان ہے کہ آئندہ چند روز میں اس کیس کی سماعت مکمل کر لی جائے گی جس کے بعد اس کیس میں بھی فیصلہ سنایا جا سکتا ہے۔

ملک ریاض نے مزید کیا کہا؟

اپنے بیان میں ملک ریاض نے کہا کہ "میری ساری زندگی میں اللہ تعالٰی نے ہمیشہ مجھے اپنے اصول پر قائم رہنے کی رہنمائی کی ہے کہ میں کسی بھی معاملے میں سیاسی فریق نہ بنوں۔"

انہوں نے کہا کہ اب ایک سال سے زیادہ عرصے سے مجھ پر سمجھوتہ کرنے کے لیے بہت دباؤ ہے۔

ملک ریاض نے مزید کہا کہ اپنی بیمار حالت اور پریشانی کے باوجود اللہ کی مدد سے اس مصیبت کا سامنا کرنے کے لیے ثابت قدم ہوں۔ روزانہ مالیاتی کاروباری نقصان برداشت کر رہا ہوں اور پوری طرح دیوار کے ساتھ دھکیل دیا جا رہا ہوں، لیکن کسی دباؤ کے ہتھکنڈوں کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالوں گا۔

ملک ریاض پر دباؤ کیا ہے؟

ملک ریاض پر کس ادارے یا شخص کی طرف سے دباؤ ہے اس بارے میں انہوں نے اپنے پیغام میں کوئی اشارہ نہیں دیا۔ تاہم پاکستان تحریکِ انصاف کی طرف سے واضح طور پر کہا جا رہا ہے کہ ملک ریاض پر حکومت اور ریاستی اداروں کا دباؤ ہے کہ وہ اس کیس میں عمران خان کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن جائیں۔

اس بارے میں مختلف کیسز میں عمران خان کے وکیل اور پارٹی رہنما شعیب شاہین ایڈووکیٹ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں ملک ریاض پر ہی نہیں بلکہ شہزاد اکبر اور زلفی بخاری پر بھی دباؤ ہے۔ لیکن ان سب نے عمران خان کے خلاف بیان دینے سے انکار کردیا ہے۔

شعیب شاہین کا کہنا تھا کہ زلفی بخاری اور شہزاد اکبر نے اپنے بیانات میں کہا ہے کہ وہ مزاحمت کریں گے اور اس فسطائیت کا سامنا کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ القادر ٹرسٹ کیس سائفر کی طرح کا کیس ہے جس میں شور مچایا گیا کہ ملک سے غداری ہو گئی اور کسی ملک سے تعلقات خراب کر دیے گئے۔ لیکن اب جب یہ کیس ہائی کورٹ پہنچا ہے تو وہاں یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ امریکہ کی طرف سے کہا گیا تھا کہ عمران خان کو نہ ہٹانے کے سنگین نتائج ہوں گے۔

شعیب شاہین کے بقول اس کیس میں بھی نیب اور حکومت کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے جس کی وجہ سے وعدہ معاف گواہان ڈھونڈے جارہے ہیں اور لوگوں پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔

اس کیس میں عمران خان اور بشریٰ بی بی ٹرسٹی ہیں اور ٹرسٹی کبھی بھی بینیفشری نہیں ہو سکتا۔ سپریم کورٹ میں پیسے آئے اور قومی خزانے میں چلے گئے۔

اُن کے بقول برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی اور ملک ریاض کے درمیان معاہدہ تھا کہ یہ خفیہ معاہدہ ہو گا۔ وفاقی تفتیشی ادارے (ایف آئی اے) اور قومی احتساب بیورو نیب نے اس کیس کو کھولا ہے۔ یہ کیس این سی اے نے 2020 میں بند کر دیا تھا لیکن اب حکومت اس معاملے کو عمران خان کے خلاف استعمال کر رہی ہے۔

شعیب شاہین نے کہا کہ اصل کیس یہ ہے کہ ملک ریاض نے لندن میں یہ پراپرٹی حسین نواز سے 19 ارب روپے میں خریدی تھی جب کہ اس کی اصل مالیت نو سے 10 ارب روپے تھی۔ اس بات کی تحقیقات ہونی چاہئیں کہ حسین نواز کے پاس اربوں روپے کہاں سے آئے دوسرا انہوں نے ملک ریاض کو بلیک میل کر کے دگنی رقم کیوں وصول کی۔

واضح رہے کہ نواز شریف کے صاحبزادے اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما ان الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔

'ملک ریاض کو قانونی چارہ جوئی کا سامنا ہے'

سینئر صحافی اعزاز سید نے اس بارے میں وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ملک ریاض کے خلاف اس وقت صرف یہی ایک 190 ملین پاؤنڈ کا ہی معاملہ نہیں ہے بلکہ ان کے خلاف ڈی ایچ اے اور بحریہ ٹاؤن کے اشتراک سے بننے والے بعض منصوبوں پر رقم کا تنازع بھی موجود ہے۔

اس کے علاوہ 190 ملین پاؤنڈ کیس میں کلیدی کردار تھے اور اسٹیبلشمنٹ کا ماننا ہے کہ وہ اس کے اصل بینفیشری ہیں اور اگر وہ وعدہ معاف گواہ بن جائیں تو کیس مضبوط ہو سکتا ہے۔

لیکن وہ وعدہ معاف گواہ نہیں بنے۔ اس کے علاوہ تیسرا اہم معاملہ یہ ہے کہ نیب راولپنڈی میں ان کے خلاف بحریہ ٹاؤن کراچی کے حوالے سے تحقیقات جاری ہیں اور اس سلسلے میں جلد کیس سامنے آنے والا ہے اور ملک ریاض کی طرف سے یہ حالیہ بیان صرف خود کو بحریہ ٹاؤن کراچی والے معاملہ میں بچانے کے لیے ہے۔

القادر ٹرسٹ اور 190 ملین پاؤنڈ کیس کیا ہے؟

عمران خان کے دورِ حکومت میں 'القادر ٹرسٹ'کی بنیاد 2019 میں رکھی گئی جس کے ٹرسٹی عمران خان، ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور ان کی قریبی دوست فرح گوگی ہیں۔

تحریک انصاف کے رہنما زلفی بخاری اور عمران خان کی مختلف مقدمات میں پیروی کرنے والے وکیل بابر اعوان بھی اس ٹرسٹ کے بورڈ کا حصہ رہے ہیں۔

القادر ٹرسٹ اُس وقت قائم کیا گیا تھا جب اُس وقت کے وزیرِ اعظم عمران خان نے اپنی کابینہ سے ایک لفافے میں بند کاغذ پر درج سمری کی منظوری لی تھی۔ جس کے تحت برطانیہ سے پاکستان کو موصول ہونے والے 190 ملین پونڈ کی رقم کو سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں منتقل کردیا گیا تھا۔

پاکستان کو یہ رقم بحریہ ٹاؤن کے برطانیہ میں ایک تصفیے کے نتیجے میں منتقل کی گئی تھی۔

بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کے خلاف برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کی تحقیقات کے نتیجے میں ملک ریاض نے مقدمہ لڑنے کے بجائے برطانوی تحقیقاتی ایجنسی سے تصفیہ کر لیا تھا جب کہ این سی اے نے 190 ملین پاؤنڈز کی رقم ریاست پاکستان کی ملکیت قرار دی تھی۔

لیکن یہ رقم پاکستان کے قومی خزانے میں پہنچنے کے بجائے سپریم کورٹ کے اُس اکاؤنٹ تک پہنچی جس میں ملک ریاض بحریہ ٹاؤن کراچی کے مقدمے میں سپریم کورٹ کو 460 بلین روپے ایک تصفیے کے تحت قسطوں میں ادا کر رہے ہیں۔

اور یوں برطانیہ سے ریاست پاکستان کو منتقل ہونے والی رقم ملک ریاض کے سپریم کورٹ میں ادائیگی کے لیے دے دی گئی۔

حکومت نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ یہ معاملہ عطیے کا نہیں بلکہ بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض اور عمران خان کی حکومت کے درمیان طے پانے والے ایک خفیہ معاہدے کا نتیجہ ہے اور حکومت کا دعویٰ تھا کہ بحریہ ٹاؤن کی جو 190ملین پاؤنڈ یا 60 ارب روپے کی رقم برطانیہ میں منجمد ہونے کے بعد پاکستانی حکومت کے حوالے کی گئی وہ بحریہ ٹاؤن کراچی کے کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ملک ریاض کے ذمے واجب الادا 460 ارب روپے کی رقم میں ایڈجسٹ کر دی گئی تھی۔

حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس کے عوض بحریہ ٹاؤن نے مارچ 2021 میں القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کو ضلع جہلم کے علاقے سوہاوہ میں 458 کنال اراضی عطیہ کی اور یہ معاہدہ بحریہ ٹاؤن اور عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے درمیان ہوا تھا۔

عمران خان کی کابینہ کے رکن فیصل واوڈا یہ کہہ چکے ہیں کہ کابینہ نے بند لفافے میں سمری کی منظوری دی تھی جو کہ برطانیہ سے موصول 190 ملین پونڈ کی ملک ریاض کی جرمانے کی ادائیگی کے لیے منتقل کی گئی۔

تین دسمبر 2019 کو وفاقی کابینہ سے بند لفافے میں سمری کی منظوری کے بعد حکومت نے اس کی تفصیلات نہیں بتائیں کہ ریاست پاکستان کا پیسہ دوبارہ کیسے ملک ریاض کے استعمال میں لایا گیا۔

دوسری جانب برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے بھی ملک ریاض سے کیے جانے والے معاہدے کی تفصیلات رازداری میں رکھیں۔اس کے نتیجے میں ملک ریاض نے مبینہ طور پر القادر ٹرسٹ کو جہلم کی تحصیل سوہاوہ میں 458 کنال اراضی کی منتقلی کی جس کے ٹرسٹی عمران خان اور ان کی اہلیہ ہیں۔

موجودہ حکومت کے آنے کے بعد وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں 'القادر ٹرسٹ' کو ملک ریاض کی جانب سے منتقل ہونے والی زمین کے معاملے پر غور کیا گیا اور اس کی تحقیقات کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

فورم

XS
SM
MD
LG