پاکستان میں حزبِ اختلاف کے دو بڑے رہنماؤں نواز شریف اور آصف زرداری کے حالیہ بیانات کے بعد پاکستان کے سیاسی حلقوں میں یہ بحث زور پکڑ رہی ہے کہ کیا مقتدر حلقے موجودہ حکومت سے مایوس ہو چکے ہیں اور ملک میں سیاسی تبدیلی کے امکانات بڑھ رہے ہیں؟
حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما نواز شریف اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف زرداری کے قریبی حلقوں کی جانب سے یہ دعوے سامنے آ رہے ہیں کہ ملک کے مقتدر حلقے اُن کے ساتھ رابطے میں ہیں۔
ادھر وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی خیبرپختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں مایوس کن نتائج کے بعد اپنی سیاسی ٹیم میں تبدیلیاں کر دی ہیں۔ پارٹی رہنما اسد عمر کو پارٹی کا سیکریٹری جنرل بنانے کے علاوہ صوبائی سطح پر بھی پارٹی قیادت میں تبدیلیاں کی گئی ہیں۔
سابق وزیرِ اعظم نواز شریف نے 23 دسمبر کو پارٹی رہنما خواجہ سعد رفیق کے والد کی برسی کے موقع پر منعقدہ تقریب سے ٹیلی فونک خطاب میں کارکنوں سے کہا تھا کہ بہت جلد آپ سے پاکستان میں ملاقات ہو گی۔
خیال رہے کہ سابق وزیرِ اعظم نومبر 2019 میں علاج کی غرض سے لندن گئے تھے۔
چند روز قبل پاکستان کے ذرائع ابلاغ میں سابق صدر آصف علی زرداری کا بیان بھی سامنے آیا تھا جس میں مبینہ طور پر اُن کی جانب سے کہا گیا تھا کہ "اب وہ ہم سے مدد مانگ رہے ہیں، لیکن ہمارا وہی مطالبہ ہے کہ پہلے اس کی چھٹی کریں پھر بات ہو گی۔"
سیاسی تجزیہ کار یہ سمجھتے ہیں کہ دونوں بڑے سیاسی قائدین اپنے بیانات سے یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان سرد مہری بڑھ رہی ہے۔
'اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی جماعتوں کے رابطے ہوتے رہتے ہیں'
سینئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس کی رائے میں بات چیت ہوتی رہتی ہے۔ خواہ وہ بیک ڈور ہو، رابطے ہمیشہ رہتے ہیں کیوں کہ بلاشبہ نواز شریف اور آصف زرداری اب بھی پاکستانی سیاست کے بڑے کھلاڑی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے مظہر عباس نے کہا کہ عام طور پر اِس طرح کی خبریں اُس وقت آتی ہیں جب اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے تعلقات میں تھوڑی سرد مہری آ جاتی ہے۔ لیکن اِس کے نتیجے میں اُن کے بقول کوئی بہت بڑی تبدیلی نظر نہیں آ رہی۔
مظہر عباس کے بقول مسلم لیگ (ن) کی جانب سے اِس بات پر زیادہ زور دیا جا رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ آئندہ عام انتخابات میں غیر جانب دار رہے۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ اِن بیانات کا مطلب ہے کہ کوئی کھچڑی پک رہی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اِن بیانات کے پیچھے کوئی پس منظر ہو گا، اگلے اتنخابات یا اگلے سیٹ اپ سے متعلق کوئی مذاکرات ہو رہے ہوں گے۔ لیکن اِن سب میں کتنی حقیقت ہے اس کا کہیں سے بھی کوئی واضح اشارہ یا ثبوت نہیں ملا۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار چوہدری غلام حسین سمجھتے ہیں کہ موجودہ حکومت کا اپنی مدت پوری کرنے کا وقت تقریباً ایک یا ڈیڑھ سال رہ گیا ہے۔ جس کے باعث کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کس وقت انتخابات کا اعلان کر دیا جائے۔ جس کے باعث حزبِ اختلاف کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنی اپنی مہم شروع کر دی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے چوہدری غلام حسین نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات، ضمنی انتخابات یا کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات میں عوام نے پی ٹی آئی کو ووٹ نہیں دیا جس کے باعث حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں کے بھی حوصلے بڑھے ہیں۔
اُنہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ دوسری جانب پی ٹی آئی نے بھی عوام دوست کام کم ہی کیے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ اِن سب باتوں سے اگر یہ نتیجہ اخذ کیا جائے کہ پی ٹی آئی کی حکومت جا رہی ہے یا نواز شریف واپس آ رہے ہیں یا زرداری صاحب آ رہے ہیں تو یہ کہنا قبل از وقت ہو گا۔
اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ اسٹیبلشمنٹ کے دونوں بڑی سیاسی جماعتوں سے رابطے چل رہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ نے دونوں بڑی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کو باور کرایا ہے کہ انتخابات میں کسی کو جتوانے سے یا کسی کو ہروانے سے اُن کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ نے یہ واضح کیا ہے کہ اُن کے جو بھی خدشات ہیں وہ اپنے تک رکھے، اُنہیں اِس میں ملوث نہ کریں۔ فوج کسی قسم کی کوئی مداخلت نہیں کرے گی۔ آئین اور قانون کے مطابق جو بھی حکومت قائم ہو گی اُس کے مینڈیٹ کو تسلیم کیا جائے گا۔
اپوزیشن جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کو اپنا وزن دکھا رہی ہیں؟
سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ حزب اختلاف کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں اپنے بیانات کی وجہ سے متحرک اور مقبول رہنا چاہتی ہیں اور وہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی یہ باور کرانا چاہتی ہیں کہ وہ عوام میں مقبولیت رکھتی ہیں۔
سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ نواز شریف اور آصف زرداری کے یہ بیانات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ آئندہ انتخابات اب قریب ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ فرض کریں اگر موجودہ حکومت قائم رہتی ہے تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ یہی حکومت اگلے آرمی چیف کا تقرر کرے گی۔ اگر یہ حکومت اُس سے پہلے رخصت ہو گئی ظاہر ہے نیا آرمی چیف بھی نئی حکومت لگائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے پاکستان کی فوجی قیادت پر جو تنقید کی تھی، جس سے (ن) لیگ بری طرح ایک شکنجے میں آ گئی تھی۔ جس سے نکلنے کے لیے شہباز شریف نے بہت جدوجہد کی ہے۔
اُنہوں نے دعوٰی کیا کہ شہباز شریف کی کچھ عرصہ قبل فوج کی اعلٰی ترین قیادت سے لاہور میں ایک ملاقات ہوئی جس سے رابطوں کے راستے کھل گئے۔
اُن کے بقول اِسی طرح بلاول بھٹو اور آصف زرداری سے فوج کی اعلٰی قیادت رابطے میں ہے۔
سینئر صحافی مظہر عباس کہتے ہیں کہ خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج سے تحریکِ انصاف کو بڑا دھچکہ لگا ہے۔ لہذٰا عمران خان اب خود پارٹی کی ازسرِ نو تنظیم سازی کر رہے ہیں۔
مظہر عباس سمجھتے ہیں کہ ابھی حکومت کے پاس ڈیرھ سال کا عرصہ ہے جس میں ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی سیاسی غلطیوں سے سیکھے اور سیاسی واپسی کی پوری کوشش کرے۔ اُن کے بقول حکومت کو یہ اندازہ ہو گیا ہے کہ جو پروگرام اُنہوں نے شروع کیے تھے اُس کے باوجو حالیہ انتخابات میں اُنہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
مظہر عباس آصف زرداری اور نواز شریف کے حالیہ بیانات کو ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی دوڑ سمجھتے ہیں۔ اُن کے بقول دونوں بڑی سیاسی جماعتیں اپنا اعتماد اور ووٹ اسٹیبلشمنٹ کو دکھانا چاہتی ہیں۔
اُن کے بقول وہ یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ پوری طرح متحرک ہیں اور وہ یہ چاہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کا کردار غیر جانب دار ہو۔
کیا نواز شریف واپس آئیں گے؟
سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ جب تک نواز شریف کی ڈیل نہیں ہو جاتی یا عام انتخابات کا اعلان نہیں ہو جاتا وہ واپس نہیں آئیں گے۔
تجزیہ کار چوہدری غلام حسین سمجھتے ہیں کہ چند روز قبل نواز شریف نے لندن میں کچھ لوگوں سے کہا تھا کہ وہ سوچ رہے ہیں کہ وہ اپنی سالگرہ پاکستان منائیں۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔
اُن کا کہنا تھا کہ میاں نواز شریف میں جیلوں، تھانوں اور تفتیشں کا سامنا کرنے کی ہمت نہ ہونے کے برابر ہے۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس سمجھتے ہیں کہ نواز شریف کی فوری طور پر وطن واپسی کے امکانات نظر نہیں آتے۔