شدت پسند تنظیم داعش نے شام میں اپنے خود ساختہ دارالخلافہ رقہ میں اطلاعات کے مطابق انٹرنیٹ تک رسائی کو مزید محدود کرنے کی کوشش کرتے ہوئے مقامی آبادی پر مزید پابندیوں اور دباؤ میں اضافہ کیا ہے۔
شام میں موجود امریکی حمایت یافتہ فورسز رقہ کا قبضہ بحال کروانے کے لیے پیش قدمی کر رہی ہیں اور اسی باعث داعش کو شدید دباؤ کا سامنا ہے۔
گزشتہ نومبر میں جب کردوں کی زیرقیادت سریئن ڈیموکریٹک فورسز نے رقہ کو آزاد کروانے کے لیے کارروائیوں کا آغاز کیا تھا تو داعش نے انٹرنیٹ کے استعمال پر نظر رکھنے کے لیے اپنے "سکیورٹی دفتر" میں ایک خصوصی سیل قائم کیا تھا۔
رقہ میں داعش کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے والے مبصر صدر دین کنو کے مطابق اس وقت سے اب تک شدت پسندوں کے اس یونٹ نے "داعش مخالف فورسز اور امریکی اتحاد سے تعاون کے الزامات میں متعدد آن لائن کارکنان کو گرفتار کیا۔"
ان کے بقول گرفتار کیے گئے بعض افراد کو داعش نے قتل بھی کر دیا ہے۔
مقامی طور پر یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ داعش کے اس یونٹ میں خواتین بھی شامل ہیں جو خواتین کے موبائل فون، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ سے منسلک دیگر آلات کی چھان بین کرتی ہیں۔
انٹرنیٹ کی نگرانی
رقہ میں داعش کے یہ کارندے وین میں ایسے آلات لے کر گھومتے رہتے ہیں کہ جو انٹرنیٹ کے استعمال کی نشاندہی کرتے ہیں۔
سائبر سکیورٹی سے متعلق واشنگٹن میں موجود ماہر دلشاد عثمان کہتے ہیں کہ "(داعش) نے وائی فائی کا پتا لگانے کے لیے جدید آلات ترکی سے حاصل کیے جن سے یہ غیر متعلقہ افراد کے انٹرنیٹ استعمال کا پتا لگا سکتے ہیں۔
عثمان امریکہ میں قائم ایک ریسرچ سینٹر "فریڈم ہاؤس" کی شام میں انٹرنیٹ کی آزادی سے متعلق مرتب کردہ رپورٹ کے شریک مصنف بھی ہیں اور ان کے رقہ میں مقامی سطح پر لوگوں سے رابطے بھی ہیں۔
عثمان نے بتایا کہ وہ ایک ایسے نوجوان کو جانتے تھے جسے کرد علاقے میں اپنے رشتے داروں سے رابطے کے لیے ایک ایپلی کیشن کے استعمال پر داعش نے حالیہ ہفتوں میں قتل کر دیا۔
رقہ میں انٹرنیٹ پوری طرح سے داعش کی گرفت میں ہے۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ وہ انٹرنیٹ صرف انٹرنیٹ کیفوں میں استعمال کر سکتے ہیں جس کی براہ راست نگرانی داعش کے لوگ کرتے ہیں اور وہ اس بات پر نظر رکھتے ہیں کہ بیرونی دنیا سے یہاں کے لوگوں کے رابطوں کو محدود تر کیا جائے۔
رقہ میں داعش کی زیادتیوں سے متعلق اطلاعات دینے والے ' رقہ میں خاموشی سے (لوگوں کا) قتل عام کیا جارہا ہے' نامی گروپ کے کارکن حسام عیسیٰ نے بتایا کہ "ان کیفوں کے مالکان داعش سے اجازت لیے بغیر اپنا کام نہیں چلا سکتے۔"
ان کے بقول ان مالکان کو داعش مخالف گروپوں سے رابطے کی کوشش کرنے والے مشتبہ افراد کے بارے میں بھی شدت پسندوں کو تواتر سے آگاہ رکھنا ہوتا ہے۔
'حکم عدولی پر سزا'
متعدد انٹرنیٹ کیفوں کو حال ہی میں داعش نے اس بنا پر بند کر دیا کہ ان کے مالکان آس پاس کے گھروں میں بھی انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کر رہے تھے۔
دو ماہ قبل داعش کے زیر قبضہ علاقے سے فرار ہونے والے ایک شخص نے بتایا کہ شامی باغیوں سے وابستہ ایک ویب سائٹ استعمال کرنے پر اسے سخت سزا کا سامنا کرنا پڑا۔
دیرالزور سے تعلق رکھنے والے اس 34 سالہ شخص نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ "میں یورپ میں قائم ایک ویب سائٹ جو باغیوں سے منسلک ہے، پر جاتا تھا جس پر مجھے دو ماہ تک داعش کی جیل میں قید رہنا پڑا۔ مجھ پر اتنا تشدد ہوا کہ میں نے موت کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھا۔"
اس کے بقول آئندہ ایسی ویب سائٹس پر نہ جانے کی تحریری یقین دہانی کے بعد اسے رہائی ملی۔
ستمبر 2016ء سے شدت پسندوں نے رقہ اور اس کے مضافات سے 19 سے زائد ایسے لوگوں کو گرفتار کیا جن پر الزام تھا کہ ان کے پاس سیٹیلائیٹ انٹرنیٹ ڈیوائسز تھیں۔