انسانی حقوق کی ایک بین الاقوامی تنظیم "ہیومن رائٹس واچ" کی رپوٹ میں کہا گیا ہے کہ شام میں 14 سے 16 سال کے کرد بچوں کو دولت اسلامیہ کے شدت پسندوں نے تحویل میں لینے کے بعد انھیں مختلف انواع کے تشدد کا نشانہ بنایا۔
نیویارک میں قائم تنظیم کا کہنا ہے کہ مئی میں سنی شدت پسند گروپ دولت اسلامیہ نے 250 سے زائد کرد بچوں کو اس وقت اغوا کیا جب وہ حلب میں اسکول کے امتحانات دے کر واپس اپنے شہر کوبانی جا رہے تھے۔
شدت پسندوں نے شروع میں 100 بچیوں کو رہا کردیا لیکن 153 کو قبضے میں ہی رکھا۔
ہیومن رائٹس واچ کی ایک سینیئر محقق ایما سنکلیئر ویب کہتی ہیں کہ " ان بچوں کو داعش کی لڑائیوں اور قتل و غارت گری کی وڈیوز زبردستی دکھائی جاتیں، انھیں سخت مذہبی تعلیم اور معمولات پر پابندی کروائی جاتی اور انھیں متواتر زدو کوب اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا۔"
ان میں سے بعض بچے یہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے جب کہ دیگر کو کوبانی میں کرد ملیشیا کے ساتھ دولت اسلامیہ کے قیدیوں کی رہائی کے بدلے چھوڑا گیا۔
آخری 25 بچوں کو گزشتہ ہفتے رہا کیا گیا جن میں اکثریت کا تعلق ان خاندانوں سے جو شام کی کرد پی وائے ڈی سے منسلک ہیں۔
ایما ویب کہتی ہیں کہ بچوں نے انھیں بتایا کہ مختلف طرح تشدد کا نشانہ بنایا جاتا انھیں ہاتھ پاوں باندھ کر الٹا بھی لٹکا جاتا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ بچے اب کوبانی واپس نہیں جا سکتے کیونکہ وہاں دولت اسلامیہ کے شدت پسندوں نے محاصرہ کر رکھا ہے۔ "لہذا انھیں ترکی بھیجا گیا جہاں ان کے خاندان جنوب مشرقی قصبے سورس میں عارضی طور پر مقیم ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ اس واقعے نے پھر اس معاملے کو اجاگر کیا ہے کہ شام اور عراق میں جاری تنازعات میں بچے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔