وفاقی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ پاکستان میں بلاسود نظام کے لیے کسی وزارت کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی حکومت اس حوالے سے کوئی وزارت بنا سکتی ہے۔ اُن کے بقول اصل کام اسٹیٹ بینک کو کرنا ہے جس نے بینکاری نظام کو اسلامی بنانا ہے جب کہ سیکیورٹی ایکسچینج کمیشن پاکستان (ایس ای سی پی) کو بھی کردار ادا کرنا ہوگا۔
فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) اور جامعہ دارالعلوم کراچی کے ’مرکز الاقتصاد الاسلامی‘ (سی آئی سی) کے اشتراک سے بدھ کو کراچی میں ’حرمتِ سود سیمینار‘ سے خطاب میں اسحاق ڈار کا مزید کہنا تھا کہ اسلامی بینکاری کے حوالے سے وزارتِ خزانہ میں ڈویژن نہیں بن سکتی کیوں کہ وہ ایک وزارت کے برابر ہوتی ہے۔
اسلامی بینکاری کےفروغ کے حوالے سے اقدامات پر انہوں نے کہا کہ حکومت اسٹیٹ بینک میں ایک ونگ بنائے گی کیوں کہ اسلامی بینکاری کے حوالے سے سب سے زیادہ کام اسٹیٹ بینک کو کرنا ہے۔ وزارتِ خزانہ ایک ہفتے میں اس ونگ کے قیام کا اعلان کر دے گی۔
ان کے مطابق ملک میں بلاسود نظام کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ پانچ سال کے عرصے میں یہ کام ہو سکتا ہے۔ اسلامی بینکنگ کو کنونشل بینکنگ سے سستا کیا جائے اور اس کی سروس بہتر ہو تو یہ ضرور کامیاب ہوگی۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ ملک کا جو مالیاتی نظام معاشی ترقی میں اہم ہوتا ہے اسی سے کاروباری طبقے کی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔ سود سے مالیاتی ضروریات پوری کی جاتی رہی ہیں۔ کنونشل بینکاری نظام سے کاروباری طبقے کے ساتھ عام لوگ بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ دنیا بھر میں کوشش کی جا رہی ہے کہ دور دراز علاقوں میں لوگوں کو بینکاری نظام میں لایا جائے۔
ان کے مطابق بینکاری نظام اب زندگی کی ضرورت ہے۔ نقد رقم کے لین دین پر اب شکوک ہوتے ہیں۔ دو نمبر یا غلط پیسے کا استعمال روکنے کے لیے بینکاری نظام ضروری ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اسلام میں سود کی ممانعت ہے۔ جب کسی کو پیسے پر پیسے کمانے کی اجازت دی جاتی ہے تو اس کو کاروبار میں پیش آنے والی مشکلات کا علم نہیں ہوتا۔ سود کے ذریعے پیسے سے پیسہ کمانا تو آسان ہو جاتا ہے لیکن وہ اسلامی نہیں ہوتا۔ غیر روایتی انداز میں رائج سودی طریقہ تو بدترین ہے اس میں کئی گنا زیادہ رقم سود کی مد میں لی جاتی ہے۔
سیمینار سے مفتی تقی عثمانی، جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان ، جماعتِ اسلامی کے امیر سراج الحق اور اسٹیٹ بینک کے حکام نے بھی خطاب کیا۔
پاکستان میں اسلامک بینکنگ پر وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ اسلامی بینکاری میں گزشتہ چند برس میں دس گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ مسلم لیگ (ن) اپنی پہلی حکومت سے ہی سودی بینکاری کے خاتمے کے لیے کوشش کرتی رہی ہے۔ اب تک اہداف کو حاصل نہیں کیا جا سکا ہے البتہ کسی حد تک پیش رفت ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسلامی بینکاری کے حوالے سے کام 2013 میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں شروع ہوا تھا۔ 2016 کے بعد ملک میں سیاسی عدم استحکام کے باعث اس ضمن میں پیش رفت نہیں ہو سکی تھی۔ اگر وہ سلسلہ جو 2018 میں مکمل رک گیا تھا وہ جاری رہتا تو اس وقت ملک میں 40 فی صد اسلامی بینکنگ کی جانب جا چکے ہوتے۔
وزیرِ خزانہ نے کہا کہ پاکستان میں کنونشل بینکنگ کو اسلامی بینکنگ پر برتری حاصل ہے۔ ریاست کے امور کو سودی نظام سے نکالنے کے لیے بتدریج آگے بڑھنا ہوگا۔
ان کے مطابق بلاسود بینکنگ نظام کے لیے اسلامک بینکنگ کے ساتھ ساتھ غیر بینکاری شعبوں یعنی میوچل فنڈز، اسلامی کیپٹل مارکیٹ اور انشورنس کے کاروبار کو بھی اسلامی بنیادوں پر ترقی دینی ہو گی۔ اس وقت یہ تمام چیزیں زیادہ تر کنونشل بینکنگ میں انٹرسٹ بیس سسٹم پر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ فیڈرل شریعت کورٹ کا اپریل 2022 میں عدالت کا جو حکم آیا ہے کہ اس سے قبل ہی یہ کام ہو جانا چاہیے تھا۔
رواں برس اپریل کے آخر میں پاکستان کی وفاقی شرعی عدالت نے ملک میں رائج سودی نظام کو خلافِ شریعت قرار دیتے ہوئے حکومت کو حکم دیا تھا کہ وہ پانچ سال میں ملک میں بلا سود معاشی نظام نافذ کرے۔
وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس ڈاکٹر سید انور کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے قرار دیاتھا کہ بینکوں کے منافع کی تمام اقسام سود کے زمرے میں آتی ہیں اور سود کی تمام اقسام قرآن و سنت سے متصادم ہیں۔
شرعی عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ربا اور سود سے متعلق موجودہ قوانین شریعت سے متصادم ہیں۔ توقع ہے کہ حکومت سود کے خاتمے کی سالانہ رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کرے گی۔
کراچی میں سیمینار سے خطاب میں اسحاق ڈار نے کہا کہ اس وقت ملک میں ہر شخص مہنگائی سے بلک رہا ہے۔ وہ ملک جو 2018 میں دنیا کی 18ویں بڑی معیشت بننے جا رہا تھا، سیاسی تجربات کی وجہ سے اب اس کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ 2035 میں یہ دنیا میں 46ویں نمبر پر شمار ہونے والی معیشت ہوگا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں ہم خود ہی اس ملک کے دشمن ہیں۔ 2013 میں انتخابات سے قبل کہا جا رہا تھا کہ چھ ماہ میں ملک دیوالیہ ہو جائے گا البتہ مسلم لیگ (ن) نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور تین سال میں ملک کی معیشت وہاں پہنچ گئی کہ یہ کہا جا رہا تھا کہ پاکستان دنیا کی 20 بڑی معیشتوں میں شامل ہو جائے گا۔ لیکن اس سفر کو روک دیا گیا۔
وزیرِ خزانہ نے کہا کہ پاکستان میں آمدن سے زیادہ اخراجات کا چلن ہے۔ اس کو حقیقت کے قریب لانا ہوگا۔ پاکستان کو اپنی آمدن بڑھانی ہو گی جب کہ اخراجات کم کرنے ہوں گے۔