وفاقی شرعی عدالت نے ملک میں رائج سودی نظام کو خلافِ شریعت قرار دیتے ہوئے حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ پانچ سال میں ملک میں بلا سود معاشی نظام نافذ کرے۔
وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس ڈاکٹر سید انور کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے جمعرات کو متفقہ فیصلے میں قرار دیا کہ بینکوں کے منافع کی تمام اقسام سود کے زمرے میں آتی ہیں اور سود کی تمام اقسام قرآن و سنت سے متصادم ہیں۔
شرعی عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ربا اور سود سے متعلق موجودہ قوانین شریعت سے متصادم ہیں۔ عدالت نے سود کے لیے سہولت کاری کرنے والے تمام قوانین اور شقوں کو غیر شرعی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یکم جون سے تمام وہ شقیں جن میں سود کا لفظ موجود ہے وہ کالعدم تصور ہوں گی۔
فیصلے میں شرعی عدالت نے کہا کہ بتایا جائے کہ سودی نظام کے خاتمے کی قانون سازی کے لیے کتنا وقت درکار ہے؟ توقع ہے کہ حکومت سود کے خاتمے کی سالانہ رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کرے گی۔
فیصلے کے مطابق اٹارنی جنرل نے عدالت میں بیان دیا کہ سودی نظام کے خاتمے میں وقت لگے گا، دو دہائیوں بعد بھی بلاسود معاشی نظام کے لیے حکومت کا وقت مانگنا سمجھ سے بالاتر ہے۔
وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل نے وفاقی شرعی کورٹ کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ حکومت اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان عدالتی فیصلے کا مطالعہ کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ فیصلے پر عمل درآمد کے لیے وفاقی شرعی عدالت نے درکار وضاحت اور رہنمائی حاصل کی جائے گی۔
'عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالیں گے'
امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عید کے بعد وہ معاشی ماہرین، وکلا اور علما سے مشاورت کرکے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالیں گے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت سے توقع ہے کہ وہ سودی نظام کے خلاف فیصلے پر عمل درآمد کے لیے حیلے بہانے تلاش نہیں کرے گی اگر حکومت اس میں رکاوٹ بنی تو حکمرانوں کا گریبان اور ہمارا ہاتھ ہوگا۔
عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)سے ہونے والے معاہدوں پر بات کرتے ہوئے امیر جماعتِ اسلامی کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ اب تک جو معاہدے ہوئے ہیں، وہ غلط ہیں ان پر نظر ثانی کی جائے۔
انہوں نے آئی ایم ایف معاہدوں کو غلامی کا طوق قرار دیتے ہوئے کہا کہ ماضی کی حکومتوں نے اب تک آئی ایم ایف کے ساتھ 22 معاہدے کیے اس کے باوجود پاکستان ترقی نہیں کر سکا۔
اس کیس میں فریق جماعتِ اسلامی کے وکیل سیف اللہ گوندل کا کہنا ہے اس فیصلے کے مطابق پاکستان کو آئندہ اپنے تمام بین الاقوامی معاہدے سود کے بغیر کرنے ہوں گے۔ سود کی وجہ سے پاکستان کے عوام کا استحصال ہو رہا ہے، ہم قرضوں کی دلدل میں دھنستے جارہے ہیں۔ سود کے بغیر بینکاری نظام ممکن ہے لیکن اس کے لیے کوشش کرنا ہو گی۔
معاشی تجزیہ کار خرم شہزاد کہتے ہیں کہ اس فیصلہ پر عمل درآمد کے لیے صرف پانچ سال نہیں بلکہ ایک طویل المدتی پالیسی درکار ہوگی، پوری دنیا جہاں پر بینکاری کا موجودہ نظام رائج ہے، اس سے بالکل الگ سود کے بغیر نظام چلانا ناممکن نہیں تو ایک انتہائی مشکل مرحلہ ضرور ہے۔
عدالت نے فیصلے میں کہا کہ معاشی نظام سے سود کا خاتمہ شرعی اورقانونی ذمہ داری ہے۔ ملک سے ربا کا ہرصورت میں خاتمہ کرنا ہوگا۔ ربا کا خاتمہ اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ہے۔
شرعی عدالت کے جسٹس سید محمد انورنے فیصلے میں کہا کہ بینکوں کا قرض کی رقم سے زیادہ وصول کرنا ربا کے زمرے میں آتا ہے۔قرض کسی بھی مد میں لیا گیا ہو اس پر لاگو انٹرسٹ ربا کہلائے گا۔ بینکوں کا ہر قسم کا انٹرسٹ ربا ہی کہلاتا ہے۔
معاشی تجزیہ کار خرم شہزاد نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کرنا پانچ سال کا عرصہ کافی نہیں ہے، آپ کے قرضے عالمی اور مقامی مارکیٹ کے مطابق ہیں، ایسا ممکن نہیں کہ سود کے بغیر آپ اپنا فنانشل نظام وضع کرلیں، اس کے لیے لگاتار کوشش درکار ہے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ دو دہائیاں گزرنے کے بعد بھی سود سے پاک معاشی نظام کے لیے حکومت کا وقت مانگنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے سود سے پاک بینکنگ کے منفی اثرات سے متفق نہیں۔سمجھتے ہیں کہ معاشی نظام کو سود سے پاک کرنے میں وقت لگے گا۔
وفاقی شرعی عدالت نے فیصلے میں کہا کہ چین بھی سی پیک کے لیے اسلامی بینکاری نظام کا خواہاں ہے۔
عدالت نے حکومت کو اندرونی اوربیرونی قرض سود سے پاک نظام کے تحت لینے کی ہدایت کی اورکہا کہ ڈیپازٹ کو فوری طور پر ربا سے پاک کیا جا سکتا ہے۔