افغانستان میں داعش نے نسبتاً غیر معروف 31 سالہ تاجک شخص کو اپنا لیڈر مقرر کر دیا ہے۔
بتایا جاتا ہے دوشنبے کے مضافات میں پیدا ہونے والے تاجک شخص سیلوالی شیفیف کے تقرر کے ذریعے داعش افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ شیفیف ابوبکری معاویہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
ریڈیو فری ایشیا کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شیفیف نے دو سال تک پاکستان میں دینی تعلیم حال کی۔ تاہم اس کا تعلق کس مدرسے سے تھا اور وہ پاکستان کے کن شہروں میں رہا، اس بارے میں مستند معلومات دستیاب نہیں ہیں۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ داعش نے افغانستان میں 200 کے لگ بھگ جنگجوؤں کا ایک لشکر تیار کر لیا ہے جس کے ارکان ازبکستان، تاجکستان اور دیگر وسطی ایشیائی ممالک سے بھرتی کیے گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق یہ لشکر افغان صوبے ننگرہار میں سرگرم ہے۔
ادھر تاجکستان کا کہنا ہے کہ سیلوانی شیفیف تاجکستان سے جنگجوؤں کو بھرتی کر کے انہیں افغانستان میں تربیت دیتا ہے اور یہ جنگجو دوبارہ تاجکستان آ کر دہشت گردی کی کارروائیاں کرتے ہیں۔
تاجک حکام کا کہنا ہے کہ تاجکستان میں داعش کے خوابیدہ سیل موجود ہیں جو کسی بھی وقت ملک کی سیکورٹی کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی ایک تجزیاتی اور نگرانی کی کمیٹی نے کہا ہے کہ داعش کا یہ 31 سالہ لیڈر سماجی رویوں کی ویب سائٹس کے ذریعے تاجک زبان میں داعش کا پراپیگنڈا پھیلاتا ہے۔
سیلوانی شیفیف کی ابتدائی زندگی کے بارے میں زیادہ معلومات تو دستیاب نہیں ہیں۔ تاہم ریڈیو فری ایشیا کے مطابق وہ دارالحکومت دوشنبے کے قریب واقع ضلع ہیسور کے گاؤں میرزو ریزو میں پلا بڑھا۔
اطلاعات کے مطابق شیفیف 2011 یا 2012 میں تاجکستان سے پاکستان چلا گیا جہاں اس نے دو برس تک دینی تعلیم حاصل کی۔ تاجک سیکورٹی اہل کاروں کا خیال ہے کہ بعد میں وہ ترکی چلا گیا اور وہاں اس نے داعش کے لیے کام کیا۔
ریڈیو فری ایشیا نے تاجک سیکورٹی اہل کاروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ شیفیف کے والد کا کہنا ہے کہ اس نے دو سال سے ان کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں کیا ہے۔ تاہم وہ تاجک میں لوگوں کو جہاد کے لیے قائل کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے اور اس کے لیے خصوصی ایپ ’زیلو‘ کو استعمال کرتا رہا ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ 2018 کے دوران دوشنبے میں ناکام دہشت گرد کارروائیوں میں سیلوانی شیفیف کا نام سامنے آتا رہا ہے اور تاجک سیکورٹی حکام کی طرف سے گرفتار کیے گئے متعدد جنگجوؤں نے تصدیق کی ہے کہ ان کا شیفیف کے ساتھ آن لائن رابطہ رہا ہے۔